صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے سیکیورٹی، پولیس اور مقامی انتظامیہ کے حوالے کریں۔
احمدزئی وزیر کا جرگہ جنوبی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر وانا میں ہوا، جس میں مقامی عمائدین سمیت، سیاسی اور سماجی کارکنوں نے شرکت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد اب یہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ علاقے کے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے امن و امان کی فضا یقینی بنائے۔
واضح رہے کہ یہ جرگہ ایک ایسے وقت میں بلایا گیا ہے جب جنوبی اور شمالی وزیرستان میں متعدد آپریشنز کے بعد علاقے میں امن و امان کی صورتحال خوشگوار نہیں اور رمضان کے مہینے میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے مقامی رہنما اور پشتون تحفظ موومنٹ کے سرکردہ کارکن سردار عارف وزیر کو قتل کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ سیکیورٹی فورسز، مقامی عمائدین اور سیاسی اور امن کمیٹی کے سابقہ کارکنوں پر حملے جاری ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے دتا خیل میں گذشتہ ایک مہینے میں سیکیورٹی فورسز پر چار سے زیادہ حملے ہوئے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دس سے زیادہ ٹارگٹ کلنگز کے واقعات میں سیاسی کارکنوں اور امن کمیٹیوں کے سابقہ اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
جرگے نے اپنے مطالبات میں کہا کہ جنوبی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ سے لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں جبکہ اس کے باوجود کچھ لوگ کالے شیشوں کی گاڑیوں میں اسلحے سمیت گھوم رہے ہیں جس سے علاقے میں امن و امان کے فضا کو خطرہ ہے۔
جرگے نے مطالبہ کیا ہے کہ اب چونکہ یہ علاقہ باقاعدہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ہے تو اب سیکیورٹی کے امور مقامی انتظامیہ اور پولیس کے حوالے کیے جائیں اور پولیس کی نفری میں اضافہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد مقامی لوگوں، سیاسی کارکنوں اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں نے امن کمیٹی کے نام پر علاقے میں دہشت پھیلانے والوں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وزیر ستان میں کالے شیشوں والی گاڑیوں میں گھومنے والے اہکاروں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی لگائی جائے۔
جرگے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں قتل ہونے والے تمام لوگوں کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔