مولانا فضل الرحمٰن صاحب! یہ تو ہوگا۔۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب! یہ تو ہوگا۔۔
دنیا بھر کی دائیں بازو کی شدت پسند طاقتوں کے پاس مذہبی اور قومی کارڈ سمیت ایسی تمام ہی پھکیاں موجود ہوتی ہیں جن کے ذریعے عوام کو ان کے اصل مسائل سے دور کیا جائے، عوامی جذبات کو ایک بوتل میں بند رکھا جائے، رائے کی آزادی کو محدود کر کے اپنے مخالف اٹھنے والی آوازوں کو بند کیا جائے۔

اب ظاہر ہے، جب بھی کسی طاقت کے منبع کو چیلنج کیا جاتا ہے، تکلیف تو اٹھتی ہے۔ طاقت میں موجود شخص کا دل کرتا ہے کہ یہ جو چند ایک بھی میرے خلاف بولتے ہیں ان کو بھی کچل کے رکھ دوں۔ لیکن ایسے کب کہیں آوازیں بند ہوئی ہیں؟ ایسے تو الٹا آپ اس پیغام کو پھیلانے میں تحریکیوں کے مددگار ثابت ہوئے۔ ان کو آپ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان نے بیان دیا کہ ملک میں قرآن و سنت کو چیلنج کرنے والوں، اور بے حیائی کو عام کرنے والوں کو بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ اپنے کارکنوں کو کہا کہ ایسے عناصر کو ہاتھ سے روکیں۔

قارئین! یہ ہے مرد کی انا کو اصل ٹھیس جو چند بولنے والیوں نے پہنچائی ہے۔ مولانا سمیت معاشرے کا ہر ناسمجھ مرد تلملا رہا ہے مگر کچھ کر نہیں پا رہا۔ کچھ کر کیسے نہیں پا رہے؟

وہ ایسے کہ جب سے عورت مارچ کرنے کا اعلان ہوا ہے، تب سے ہی کبھی سوشل میڈیا پر رگیدنا، عدالتی ٹول کا استعمال اور اب بیان بازیوں جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال جاری ہے مگر تحریکی تو جیسے لڑنے والی مکھی کی طرح چمٹ ہی گئے ہیں، اتر ہی نہیں رہے۔ اس سے پہلے بھی مولانا کی ہی جماعت کے ایک سندھ کے راہنما نے مسجد میں بیٹھے خطاب میں اپنی تکلیف کا اظہار کیا اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف زہر اگلا۔

وہی کام مولانا فضل الرحمان نے اپنے حالیہ خطاب میں کیا اور اپنے خوفزدہ ہونے کا بھرپور اظہار کیا۔ اس کو خوف کے علاوہ کاروبار بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے پی کے فلم دیکھ رکھی ہوگی۔ اس میں ڈر کے کاروبار کو لے کر انتہائی خوبصورتی سے ان مذہبی ٹھیکیداروں اور عوامی ردعمل کو دکھایا گیا ہے۔ دراصل یہ ڈر کا کاروبار ہمارے ہاں بھی ہر مولوی اور ہر رائٹ کا سیاستدان کرتا ہے۔ عوام جب آپ سے اصل مسائل اور ان کے حقوق پر سوال کرنے لگیں تو مذہب کا یا حب الوطنی کا کارڈ کھیل دو تاکہ کسی کو بات کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔

آج آپ کو علم ہوگا کہ ہمارے آئین میں غداری کی کون سی شق ہے۔ یہ بھی کہ بلاسفیمی کا قانون کس عدد پر موجود ہے، مگر کیا آپ کو یہ بھی علم ہے کہ آپ کے حقوق کی بات آئین میں کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ مزدور کی کم سے کم تنخواہ آئینی طور پر کتنی مختص ہے اور اس کی بڑھوتی پر کوئی بات کیوں نہیں کرتا؟ خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی تو وہ بھی چند جرات مند خواتین کی جانب سے ہی، مگر ہمیں ان کے خلاف کر دیا گیا۔

پنجاب اسمبلی میں خواتین تحفظ قانون نے قانونی شکل شرمین عبید چنائے کی اس ڈاکومنٹری کے بعد دینا پڑی جس میں اس نے ایک خاتون پر تیزاب پھینکے جانے اور اس کے بعد کی مشکلات کو دکھایا۔ عورت کے مسئلے پر سنجیدگی سے پھر بھی بات نہ ہوئی اور ہلکے پھلکے تشدد سی بحثیں شروع ہو گئیں۔ اب بھی جب خواتین سڑکوں پر نکل رہی ہیں تو وہ مکمل تیاری سے ہیں۔ چارٹر آف ڈیمانڈ موجود ہے جس میں قانون سازی کے عمل میں سفارشات کے لئے ایک مشاورتی ٹیم بھی ہوگی اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھے جانے کی تمام توجیہات بھی۔ تو مسئلہ کہاں پیش آ رہا ہے؟

مسئلہ صرف یہ ہے کہ میرے گھر میں موجود خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ پدر شاہی کا برج جب ہلایا جا رہا ہے تو سب سے اوپری منزل پر بیٹھے مولانا فضل الرحمان، اور ان کے تمام ہم خیال برج ہلانے والوں کو ڈرانے کی کوشش میں ہیں مگر کچھ کر نہیں پا رہے۔ مولانا صاحب کے لئے عرض ہے کہ یہ تو ہوگا۔ آپ کے آگے آپ کی مرضی پر زندگی بسر کرنے والی خواتین نہیں ہیں، یہ خواتین آپ کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ سوچ سمجھ کر قدم رکھیے!

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔