پاکستان کا اب تک کا المیہ یہ ہے کہ تقریباً ہر آنے والی حکومت جو کہ عوام سے کارکردگی دکھانے کے وعدے کر کے آتی ہے مگر آتے ہی یا تو سابقہ حکومت کے خزانہ خالی چھوڑ جانے پر واویلا مچانا شروع کر دیتی ہے یا پھر اگر وہ مدت پوری نہ کر سکیں تو اپنی نااہلی کا رونا مدت پوری نہ کرنے پر ڈال دیتے ہیں۔غرض دونوں صورتوں میں بھگتنا عوام کو ہی پڑتا ہے۔
مجھے اس طرح کی صورتحال میں ان ممالک کی حکومتیں یاد آتی ہیں جو اقتدار میں آتے ہی دن رات ایک کر کے عوام کی بھلائی کے قوانین بناتی ہیں اور جو وقت اپنی نااہلی چھپانے یا سابقہ حکومت کا رونا رونے میں صرف ہوتا ہے وہی وقت وہ عوامی فلاح میں لگاتے ہیں۔
مثال کے طور پر انیس سو پچھتر میں جب جب امریکہ نے ویت نام سے انخلا کیا اس وقت تک لاکھوں کی تعداد میں ویتنامی مر چکے تھے اور ملک کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔اس وقت کی ویتنامی قیادت کے لیۓ بڑا اچھا موقع تھا کہ سب کچھ امریکہ پر ڈال کر اپنی جان چھڑاتے اور ملک کا حال مزید خراب کرتے۔مگراس وقت ان کی قیادت نے ماضی کا رونا رونے کی بجاۓ حال پر توجہ دیتے ہوئے ملک کے مستقبل کا سوچا جس کے نتیجہ میں اگر یہ کہا جائے کہ ویت نام آج ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
اگر بنگلہ دیش کا جائزہ لیں تو دسمبر 1971 کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت بآسانی مغربی پاکستان پر ملبہ ڈال کر نااہلی کا مظاہرہ کر سکتی تھی اور اسی طرح بعد میں آنے والی حکومت اپنے سے پہلے والی حکومت کی بری کارکردگی کا رونا رو سکتی تھی مگر انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجاۓ اور پاکستان کی زیادتیوں کا رونا رونے کی بجاۓ اپنے ملک میں اقتصادی ترقی کا سفر جاری رکھا۔آج بنگلہ دیش کے چالیس ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور پچھلے چند سالوں میں کئی پاکستانی کاروباری حضرات بھی اپنا کاروبار بالخصوص کپڑے کا کاروبار بنگلہ دیش میں منتقل کر چکے ہیں۔
اب ہم جاپان کا جائزہ لیتے ہیں تو جاپان میں دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے دو شہروں ہر ایٹم بم گراۓ جانے کے بعد بہت تباہی ہوئی اور اس کے اثرات جسمانی اور اقتصادی صورت میں کئی برسوں تک جاپان کو بھگتنے پڑے۔ مگر آج امریکہ اور چین کے بعد تیسری بڑی اقتصادی قوت کا حامل ملک جاپان ہے۔ ابھی بھی جاپانی اشیاء کا معیار پوری دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے۔
جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بننے والے پہلے وزیراعظم کی تقریباً دو مہینہ پر مشتمل حکومت سے لے کر دو ہزار بارہ سے لے کر دو ہزار بیس تک آٹھ سال وزیراعظم رہنے والے تک نے کبھی ماضی کا رونا نہیں رویا اور کبھی اپنی ناقص کارکردگی یا نااہلی کا مظاہرہ پچھلی حکومتوں کا رونا رو کر نہیں کیا۔ یہی وقت انہوں نے حال پر صرف کر کے اسے بہتر بنانے پر لگایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپانی ایک محنتی قوم ہے اور اس کے سیاست دان اپنی قوم کی امیدوں پر پورا اتر رہے ہیں۔
اب ہم اپنے ایک اور ہمسایہ ملک ایران کی طرف نگاہ دوڑائیں تو وہاں بھی لاتعداد ملکی مسائل کے باوجود ملک اپنے پیروں پر کھڑا اور ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ ایران نے عراق کے ساتھ آٹھ سال جنگ بھگتی اور اس کے بعد آج تک امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے مختلف وجوہات کی بنا پر اقتصادی پابندیاں بھی بھگت رہا ہے۔
اس سب کے باوجود ایران نے کسی ملک کے آگے کشکول پھیلا کر بے بسی کا رونا نہیں رویا۔
ایران کے حکمران بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم انقلاب لے آئے ہیں اب بس اسی پر گزارا کرو اور خود پر لگی بیرونی پابندیوں کی وجہ سے ملک میں ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔
ایسی کئی اور مثالیں دنیا میں موجود ہیں مگر ان میں سے کسی نے بھی ہمارے حکمرانوں جیسا زرخیز دماغ نہیں پایا۔ ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے ملک میں دودھ کی نہریں بہانے کا وعدہ کر کے عوام کو سہانے سپنے دکھاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کوئی عوامی فلاح کا کام کرنے کی بجاۓ پچھلی حکومتوں کی نااہلی،کرپشن اور خود کی دور حکومت کا مختصر دورانیہ ملنے کا رونا رو کے سارا الزام اپوزیشن جماعتوں یا اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر آسانی سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
یہ رونا رو کر ہر دفعہ اپنی نااہلی اور ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اپنی باری بھگتا کر نکل جاتے ہیں اور اگلی دفعہ عوام کو اپنے جھانسے میں لانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔