پرویز الہیٰ فوری طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں تھے، وہ ترقیاتی منصوبے مکمل کرنا چاہ رہے تھے۔ مونس الہیٰ ڈر رہے تھے کہ اگر ہم حکومت سے نکلتے ہیں تو ہمارے خلاف مقدمے بنائے جائیں گے۔ اسی لیے آخری دم تک کوشش ہوتی رہی کہ عمران خان کسی طرح مان جائیں، پرویزالہیٰ آج اسلام آباد میں اہم شخصیت سے ملنے گئے اور عمران خان سے بھی ملے۔ مونس الہیٰ نے بھی عمران خان کو منانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔ عمران خان سمجھتے ہیں وہ مقبولیت کے عروج پر ہیں اور دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل والے فیصلے سے وہ خبروں میں رہیں گے۔ یہ کہنا ہے صحافی احمد ولید کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید کا کہنا تھا کہ اس وقت (ن) لیگ کی پوزیشن کمزور ہے، وہ پرویز الہیٰ پر پریشر ڈال رہے تھے کہ وہ اسمبلی نہ توڑیں۔ اگر معاملہ عدالتوں میں جاتا ہے تو اب منظرنامہ بدل چکا ہے اور وہاں بھی پی ٹی آئی کو ویسا فائدہ نہیں ملے گا جو پہلے پنجاب میں ان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے انہیں ملا تھا۔ بلاول بھٹو کے بیان سے بھارت میں ایک بحث شروع ہو گئی اور یہی اسٹیبلشمنٹ چاہ رہی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھارت سے متعلق پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ ہو سکتا ہے (ن) لیگ کا یہ مؤقف نہ ہو اور پیپلزپارٹی کا اپنا بیانیہ ہو۔
تجزیہ نگار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ آج چودھریوں کا دن تھا، آخرکار انہوں نے واضح فیصلہ لے لیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ جائیں گے۔ آئندہ الیکشن 2018 والے انتخابات سے مختلف ہوگا، اس میں یہ نہیں ہوگا کہ اتنی سیٹیں فلاں پارٹی کو دے دو اور اتنی فلاں کو، یہ ایک کانٹے دار مقابلے والا الیکشن ہوگا۔ پرویز الہیٰ نے سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا ہے کہ (ن) لیگ کے ساتھ جائیں تو کوئی چانس نہیں اگلی بار وزیراعلیٰ بننے کا، پی ٹی آئی کے ساتھ جانے سے پھر بھی تھوڑے بہت چانسز بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چودھری سارے فیصلے خود نہیں کرتے، ق لیگ اسٹیبلشمنٹ کا اثاثہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہے کہ چودھری پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں اور اگلی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے کھاتے سے پندرہ بیس سیٹیں لے کر آئیں۔ جب ضرورت تھی کہ پنجاب میں ایف آئی آر نہ درج ہو تو وہ نہیں درج ہوئی، یہ ویٹو پاور آئندہ بھی اسٹیبلشمنٹ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہے گی۔
اینکر پرسن نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ عمران خان آج فوری طور پر بھی اسمبلیاں تحلیل کر سکتے تھے مگر انہوں نے 6 دن لے لیے ہیں تو ان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پرویز الہیٰ اسمبلی تحلیل کر بھی دیتے ہیں تو ان کا فیصلہ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے اور ماضی میں بھی عدالتوں نے تحلیل ہو چکی اسمبلیوں کو بحال کیا ہے۔ اسمبلیاں ٹوٹ جانا اتنا آسان نہیں اور نہ ہی فوری طور پر اگلا الیکشن ہو جانا اتنا آسان ہے۔
بلاول بھٹو کے بیان سے لگتا ہے کہ پچھلی اسٹیبلشمنٹ کے برعکس نئی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے معاملے پر سخت لائن لینا چاہتی ہے۔ عمران خان اور باجوہ صاحب نے جلدی جلدی میں کرتار پور کوریڈور بنا کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی مگر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا عمران خان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ عدالت میں یہ دلیل سامنے آئے گی کہ عمران خان نے محض مرکز میں کرسی حاصل کرنے کے لیے دو صوبوں کے عوام کو نمائندگی کے حق سے محروم کر دیا۔ عدالت یہ بھی دیکھے گی کہ دونوں صوبوں میں حالات ایسے ہرگز نہیں تھے کہ حکومت نہ چلائی جا سکے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔