خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے 95 ایم پی اے ہیں اور خبریں آ رہی ہیں کہ 47 لوگوں پر مشتمل فارورڈ بلاک بن سکتا ہے جو اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو رہیں بلکہ ایک ہفتے میں آزاد کشمیر اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتماد لائی جا رہی ہے اور وہاں بھی پی ڈی ایم کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے بھی 30 سے 35 لوگوں نے سپیکر راجہ پرویز اشرف سے رابطہ کرکے انہیں بتایا ہے کہ وہ استعفے نہیں دینا چاہتے۔ پرویز الہیٰ، محمود خان اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے عمران خان کو ببانگ دہل منع کیا ہے کہ وہ اداروں پہ تنقید نہ کریں۔ یہ کہنا ہے صحافی وقار ستی کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی صورت حال سے متعلق ڈوریاں اس مرتبہ وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس سے ہلائی جا رہی ہیں، پنڈی کی جانب نہیں دیکھا جا رہا اور یہ خوش آئند تبدیلی ہے۔ اس وقت پرویز الہیٰ مونس کے ذریعے عمران خان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور چودھری شجاعت کے ذریعے پی ڈی ایم کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ آج کچھ اہم باتیں ہوئی ہیں؛ چودھری شجاعت علالت کے باوجود خود چل کر بلاول ہاؤس گئے، گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کے لیے پی ٹی آئی کے لوگ نہیں آئے اور خان صاحب نے آج تنقید کے لیے نام لینے کے بجائے 'ایک صاحب ایک صاحب' کی گردان سنائی۔
صحافی احمد ولید کا کہنا تھا کہ پرویز الہیٰ دل سے چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل والا معاملہ عدالت میں چلا جائے۔ آف دی کیمرا وہ اس وقت بھی یہی بتا رہے ہیں کہ اسمبلی توڑنا قطعاً ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 95 فیصد اراکین صوبائی اسمبلی بھی یہی چاہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہ ہو۔ آج پی ٹی آئی کا اجلاس ہوا تو اس میں 156 اراکین پنجاب اسمبلی شامل ہوئے۔ پی ٹی آئی والے عذر پیش کر رہے ہیں کہ باقی لوگ باہر ہیں اس لیے نہیں آ سکے مگر دال میں کچھ نہ کچھ ضرور کالا ہے۔
ضیغم خان نے کہا کہ ملک میں اس وقت تین سیاسی اور ایک غیر سیاسی پارٹی ہے اور کوئی پارٹی بھی نہیں چاہتی کہ اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں۔ سبھی کی کوشش ہے کہ معاملہ عدالت میں دھکیلا جائے اور ہارے جیتے بغیر چند اور ہفتے، چند اور مہینے مل جائیں اور اس دوران کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی کھیل پارلیمانی دائرہ اثر سے نکل کر عدالتی ڈومین میں چلا گیا ہے۔ سب کا مفاد اسی میں ہے۔ (ق) لیگ والے 35 صوبائی اور 10 قومی اسمبلی کی سیٹیں مانگ رہے ہیں پی ٹی آئی سے، پرویزالہیٰ بادشاہ کے آدمی ہیں اور وہ جہاں ہیں بادشاہ کی مرضی سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیانیے کے فیز ون کی ناکامی کے بعد عمران خان کا مقصد تھا کہ ملک میں آئینی طریقے سے بحران پیدا کر دیا جائے۔ بحران کے ذریعے سے وہ اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ غیر مقبولیت کے راستے پر چل پڑے ہیں لیکن وہ اسی صورت میں غیر مقبول ہو سکتے ہیں اگر پی ڈی ایم معیشت ٹھیک کرکے مقبولیت حاصل کر لے۔
تنزیلہ مظہر کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اس بات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ الیکشن کو ایک سال آگے لے جایا جائے اور عمران خان اسی وجہ سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے خلاف کیسز بھی میچور ہو رہے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کو کارروائی تیز کرنے کا کہا ہے، آڈیو لیکس ہو رہی ہیں جس سے ان پر اخلاقی دباؤ ہوگا کیونکہ انہوں نے پارسائی کے دعوے کیے ہیں اور مورل پولسنگ کی ہے۔ لگتا ہے کہ سسٹم نے اتفاق کر لیا ہے کہ خان صاحب کو نااہل ہونا چاہئیے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔