غلامی سے آزادی کے بعد بھی کئی دہائیوں تک اس کے اثرات سوچ، تخیل اور فیصلہ سازی میں نظر آتے رہتے ہیں۔ اصل آزادی اس وقت ملتی ہے جب کسی خوف، ڈر اور لالچ کے بغیر فیصلے کیے جائیں۔ یہ رویہ افراد میں پایا جاتا ہے جو اجتماعی طور پر پوری قوم کا رویہ بن جاتا ہے۔ بد قسمتی سے انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی غلامانہ سوچ اور رویوں نے ہماری جان نہیں چھوڑی۔ جب بھی کوئی بڑا قومی فیصلہ لینا ہوتا ہے ہم اکثر بیرونی اشاروں کے منتظر رہتے ہیں یا پھر اس فیصلے کے ساتھ خوف، ڈر اور لالچ کو اس قدرمنسلک کر لیتے ہیں کہ وہ فیصلہ ہمارے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ اس رویے میں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ناگزیر فیصلوں کو لینے میں اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے بے پناہ نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ کسی بھی فیصلے کے اچھے یا برے ہونے کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کس وقت لیا گیا۔ ایک عظیم مسلمان فلسفی نے کہا تھا کہ احمقوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ضروری فیصلے کو اس وقت تک التوا میں رکھتے ہیں جب تک اس فیصلے کا مؤثر وقت نکل چکا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس اور امریکہ میں سے کسی ایک بڑی طاقت کا دورہ کرنا تھا تو کہا جاتا ہے پاکستان کے وفد کی روس جانے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی مگر آخری وقت میں لیاقت علی خان نے فیصلہ لیا کہ وہ روس کے بجائے امریکہ جایئں گے۔ ہم بحیثیت قوم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ لیاقت علی خان کا وہ ٖفیصلہ درست تھا یا غلط۔ لیاقت علی خان کا فیصلہ درست تھا یا غلط، یہ ایک لمبی بحث ہے مگر ہم آج تک اس گرداب میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط۔ وہ اس لیے کہ وہ فیصلہ ہم نے ایک آزاد قوم کے طور پر نہیں لیا تھا بلکہ ہندوستان کے ڈر اور امریکی لالچ میں لیا تھا۔ ڈر اور لالچ میں لیے جانے والے فیصلے آزاد قوموں کو زیب نہیں دیتے اور ان کے لیے کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوتے۔
اسی طرح سے جب مشرقی پاکستان میں حالات نہایت کشیدہ ہو گئے اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو گئی تو پاکستان کو کئی دوست ممالک نے مشورہ دیا کہ عوامی تحریک سے مذاکرات کر کے مسائل کا سیاسی حل نکالا جائے۔ بلکہ مشہورلکھاری جاوید جبار نے تو اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ مجیب آخری وقت تک پاکستان کے مقتدر حلقوں سے کہتے رہے کہ ایک الگ ملک کا مطالبہ ان کا محض ایک سیاسی نعرہ ہے، آپ ہمیں ایک حد تک خود مختاری دے دیں۔ مگر ہم نے فیصلہ لینے میں تاخیر کی کہ ہمیں ملک کے مشرقی حصے سے محروم ہونا پڑا۔ مشرقی پاکستان والے معاملے میں مناسب وقت پہ فیصلہ نہ لینے کی دو بڑی وجوہات تھی؛ ایک عوامی تحریک اور شیخ مجیب پر ہندوستانی اثرورسوخ کا خوف اور دوسرا ممکنہ امریکی امداد کا زعم۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ہم آزاد قوم کی طرح فیصلے نہ لے سکے اور ہمیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ مگر آج کل ایک فیصلہ جس نے ہماری غلامی پہ اپنی مہر ثبت کر دی ہے وہ نئے آرمی چیف کی تعنیاتی ہے اور یوں دکھائی دے رہا ہے کہ تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہونا ہے۔ مگر اب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہیں ہو سکا۔ پورا ملک لاقانونیت، فسادات، سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے اس ملک کو نظر نہ آنے والی مافوق الفطرت طاقتیں چلا رہی ہیں کیونکہ حکومت اور اس کی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہی۔ اس ملک میں اس وقت دو ہی خبریں ہیں؛ نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور عمران خان کا لانگ مارچ۔ حکومت اس کوشش میں ہے کہ آرمی چیف ان کی مرضی کا ہونا چاہئیے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی بضد ہے کہ آرمی چیف ان کی مرضی کا ہونا چاہئیے۔ راقم اپنے 22 ستمبر والے کالم میں تفصیل سے بیان کر چکا ہے کہ کس طرح پاکستان میں ہر سیاست دان کو اپنی اپنی پسند کا آرمی چیف چاہئیے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں موجودہ تماشہ اور سیاسی سرکس صرف آرمی چیف کی تعیناتی والے معاملے کی وجہ سے ہے۔
اگر یہ حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور روز بروز کے احتجاج اور لانگ مارچ کی وجہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں غیر یقینی صورت حال ہے تو موجودہ حکومت اور آرمی کی لیڈر شپ ملک کے وسیع تر مفاد میں کیوں نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان نہیں کر دیتی؟ جب بظاہر حکومت، حزب اختلاف اور آرمی کا ادارہ اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اب کے بعد پاکستان کی ملٹری اور اس کے ادارے کسی بھی قسم کا کوئی غیر آئینی اور سیاسی کردار نہیں نبھائیں گے تو نیا آرمی چیف جو بھی آئے، اس سے کیا فرق پڑے گا۔ 27 اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کے سکیورٹی کے ادارے اپنی آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں گے۔ اگر سیاست اور ملٹری کے مقتدر حلقوں کی باتوں میں سچائی ہے تو پھر سب اپنی اپنی جگہ پر خود غرضی کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے وزیر اعظم کو ابھی تک ان ممکنہ پانچ لوگوں کے نام نہیں بھجوائے جن میں سے ایک جنرل کو وزیر اعظم آرمی چیف تعینات کریں گے۔
ملک اس وقت شدید افراتفری اور سیاسی ابتری کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کا سیاسی جنون اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ پورے ملک میں سڑکوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد حالات اور کشیدہ ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن مارنے اور مر جانے پر تل گئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر معاملے میں پاکستان کی آرمی کی لیڈر شپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ عمران خان اور ان کے حامی شب و روز آرمی کی اعلیٰ لیڈر شپ پر سب وشتم میں مصروف ہیں۔ اگر یہ سارا طوفان بدتمیزی ایک تعیناتی کے اعلان سے تھم سکتا ہے تو ملک کی سلامتی اور آبرو کے ساتھ مزید کھلواڑ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا 22 کروڑ عوام پہ مشتمل ایٹمی ملک جو اسلام کا قلعہ ہونے کا بھی دعویدار ہے، وہ اپنے ملک کے آرمی چیف کا فیصلہ نہیں کر سکتا؟ کیا یہ وہی استدلال کا چکر ہے جس نے ہمیں 75 سال سے آزادانہ اور دلیرانہ فیصلوں سے روک رکھا ہے۔ کیا یہ وہی حماقت ہے جس میں نقصان ہمارے سامنے ہو رہا ہے مگر اس کو روکنے یا کم کرنے کے لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ اس دفعہ بھی ماضی کی طرح کسی ایک گروہ، سیاسی جماعت اور کسی فرد واحد کے ڈر سے ایک فیصلہ لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
کیا واقعی ریاست پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آرمی چیف کی تعیناتی ہے؟ پاکستان وہ ملک ہے جو بھوک کے لحاظ سے دنیا کے 121 ممالک میں سے 99 ویں نمبر پر، امن میں 163 ممالک میں سے 147 ویں نمبر پر اور پاسپورٹ کی اہمیت کے حساب سے 92 ویں نمبر پرہے۔ پاکستان میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ڈالر ہم سے کنٹرول نہیں ہو پا رہا۔ دوست ممالک ہماری روز کی بھیک سے تنگ آ چکے ہیں اور پاکستان کو ایک بوجھ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے جس کے وسائل دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ 2021 میں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.85 فیصد تھی جو کہ 2022 میں بڑھ کر 1.91 فیصد ہو چکی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ہے جن کی آبادی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی اداروں نے ایک انتظامی فیصلے کی آڑ میں ملک اورعوام کو الجھا رکھا ہے۔ ان مخدوش اقتصادی اور سیاسی حالات میں آرمی چیف کی تعیناتی کو اس قدر مرکزی حیثیت دینا اور حالیہ غیر یقینی صورت حال کو ختم نہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے روم جب جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔