بابا جانی، ابوجی، پاپا جانی، دوست، محافظ، سایہ کہوں یا زندگی کہوں، کس نام سے پکاروں، کن الفاظ میں پکاروں؟ انگریزی، اردو، فارسی بلکہ تمام زبانوں میں ایسا کوئی لفظ موجود ہی نہیں جس کو استعمال کر کے “باپ” کی ہستی کو بیان کیا جا سکے یا باپ کے مکمل روپ کی عکاسی ہو سکے۔
بھلا کیسے ممکن ہے کہ کُل کائنات کو کسی ایک یا چند الفاظ میں سمیٹ لیا جائے۔ باپ کو محبت میں سمیٹوں تو احساس کہاں جائے؟ احساس میں سمیٹوں تو احسان کہا جائے؟ احسان میں سمیٹوں تو شفقت کہاں جائے؟ شفقت میں سمیٹوں تو محافظ کہاں جائے؟ محافظ میں بیان کروں تو سایہ کہاں جائے؟ سائے میں سمیٹ لوں تو چاہت کہاں جائے؟ چاہت میں سمیٹوں تو رحمت کہاں جائے؟
کس لفظ میں کس طرح بیان کروں اس ہستی کو جو سراپا رحمت بھی ہے، محبت بھی، محافظ بھی اور ہماری زندگی کی موجودگی کی وجہ بھی۔ مرد تو پیدا ہوتے ہی مرد ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کمانے کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے، ذمہ داری کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے مگر باپ بنتے ہی یہ مرد کوئی اور مخلوق بن جاتی ہے جسے نہ اپنی فکر نہ پنے لئے کوئی چاہت، نہ اپنی کوئی خواہش کی پرواہ، صرف کچھ فکر رہتی ہے تو اولاد کی خوشیوں کی، ان کے سکون کی، ان کی زندگی سنوارنے کی۔
بچوں کی خوشیوں اور زندگی سنوارنے کے لئے اپنی جان لڑانے والے باپ کو اپنے لئے کچھ نہیں چاہیے ہوتا صرف کوئی طلب ہوتی ہے تو اتنی کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر معیارِ زندگی دے سکے اور اولاد کو معاشی، اخلاقی اور سماجی طور پر ایک کامیاب انسان بنا سکے۔
باپ ایک مقدس محافظ بن کر اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ کیسی صفت رکھی ہے قدرت نے “باپ” کے روپ میں مرد میں جو اپنی سانس تک اولاد کی سانسوں میں شامل کرکے اس کی زندگی بڑھانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ گلیوں میں کڑی دھوپ میں چھابڑی فروش، مزدور، کمہار، موچی، غبارے بیچنے والے، دربان اور ہر طرح کا کام کرنے والی یہ ہستیاں ملازم نہیں بلکہ “باپ” ہیں جن کو کسی نہ کسی طرح اپنی اولاد کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں۔
سارا سارا دن، رات، سردی، گرمی ہر موسم ہر تکلیف ہر دکھ اور پریشانی کے باوجود یہ باپ نامی ہستیاں سڑکوں پر، بازاروں میں، دفتروں میں ہر جگہ لوگوں کی باتیں، طعنے سنتے، بےعزت ہوتے ہیں مگر وہ مسلسل کام جاری رکھتے ہیں مرتے دم تک کیونکہ ان کو اپنی اولاد کی ضروریات پوری کرنی ہیں۔
جس لمحے اولاد گھر میں سکون کر رہی ہوتی ہے، عمدہ لباس پہنے بہترین سکول اور کالج میں پڑھ رہی ہوتی ہے یا عمدہ کھانا کھا رہی ہوتی ہے، اسی لمحے اس “باپ” کو آفیسر گالیاں دے رہے ہوں یا لوگ باتیں سنا رہے ہوں، ذلیل کر رہے ہوں اور اس لمحے ایک انسان ہونے کی حیثیت سے جواب دینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی خاموش رہنے والا مرد صرف ایک “باپ” ہی ہوتا ہے جس کو لوگوں کے طعنے اور گالیاں اور ذلت محسوس ہوتے ہوئے بھی خاموش رہنا ہے کیونکہ اسکو اپنی اولاد کے لئے ہر صورت کمانا ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں
اولاد ماں باپ کی جوانی کھا جاتی ہے۔ ماں باپ تمام عمر اولاد کے لئے جیتے ہیں، اپنی تمام ضرورتوں اور محبتوں کو پسِ پشت ڈال کر وہ صرف جوان ہوتی اولاد میں اپنا بچپن اپنی جوانی دیکھتے ہیں اور افسوس کہ اولاد اکثر جوان ہو کر ماں باپ سے پوچھتی ہے کہ آخر آپ نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟ اگر پرورش کی ہے تو وہ سب والدین کا فرض ہے، آپ نے انوکھا کام نہیں کیا، ایسی بدبخت اولاد کو والدین بچپن سے جوانی تک اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھتے ہیں اور یہی اولاد جوان ہو کر بڑھاپے میں ماں باپ کے لیے اذیت بن جاتی ہے۔
ایک بیٹی ہونے کی حیثیت سے میں یہ بات بخوبی جانتی ہوں کہ بیٹی کے لئے باپ کس قدر شفیق، ہمدرد، حساس اور دوست ہوتا ہے۔ بیٹی جانتی ہے کہ اس دنیا کی تمام پریشانیاں دور کرکے اس کا باپ اس کے لئے خوشیاں خرید لائے گا، بیٹی جانتی ہے کہ اس کا باپ اس کی زندگی میں آنے والے حالات کی آندھی، طوفان، گرج چمک، گرم سرد ہوا اور ہر قسم کی آفت سے اس کو محفوظ کر لے گا۔
بیٹی جانتی ہے کہ وہ زندگی میں جب جب گرے گی اسکو کوئی سہارا دے نہ دے مگر اس کا باپ اس کو سنبھالنے کے لئے موجود رہے گا۔ بیٹی جانتی ہے وہ صرف باپ کی موجودگی میں مکمل ہے۔ وہ صرف باپ کی موجودگی میں شہزادی ہےوہ صرف باپ کی موجودگی میں نخرے کر سکتی ہےاور اگر باپ نہیں تو وہ بیٹی نہ شہزادی رہتی ہے نہ ہی اس کے نخرے کوئی اٹھا سکتا ہے۔
خدائے ارض! میں بیٹی کے خواب کات سکوں
تو میرے کھیت میں اتنی کپاس رہنے دے
ہم صرف ماں کی عظمت اور جدائی کی بات کرتے ہیں، مگر ماں باپ دونوں کی موجودگی زندگی کو مکمل کرتی ہے۔ زندگی اگر ماں کے جانے سے اداس ہوتی ہے تو باپ کے جانے سے بھی ویران ہوتی ہے۔
باپ کی حیثیت اور موجودگی اولاد کی زندگی میں اتنی ہی ضروری ہے جتنی جسم کے لئے روح، باپ کی موجودگی میں جوانی میں بھی بچپن کی بے فکری جی رہے ہوتے ہیں اور باپ کے فوت ہوتے ہی بچپن میں جوانی کی سی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ انسان عمر سے دس سال بڑا ہو جاتا ہے۔ سکون پھر پریشانی بن جاتا ہے، پھر زندگی میں صرف بے سکونی اور مشقت مقدر بن جاتی ہے۔
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو,دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے (طاہر شہیر)
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے والدین حیات ہیں ورنہ جن کے والدین میں سے دونوں یا کوئی ایک موجود نہیں ان کے لئے زندگی مکمل ہو کر بھی ہمیشہ ادھوری رہتی ہے۔اک کسک دل میں موجود رہتی ہے۔جو ہر خوشی ہر غمی پر دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
جب والد کا سایہ نہ رہے اولاد کا بہترین دوست بھی نہیں رہتا۔۔بیٹیاں شہزادیاں نہیں رہتی کوئی دنیا میں پھر انہیں شہزادی نہ کہتا ہے نہ احساس دلاتا ہے۔۔کوئی ان کو محبت کی ٹھنڈک کا احساس نہیں دلا سکتا بیٹوں کا دوست کھو جاتا ہے بیٹے ناکامی اور کامیابی میں باپ کی محبت بھری تھپکی کو ترستے ہیں بیٹوں کی مشکلات میں کندھے سے کندھا جوڑ کر چلنے والا کوئی نہیں رہتا اولاد کی زبان سے لفظ “بابا جانی” کھو جاتا ہے۔وہ پکارنا بھی چاہیں نہیں پکار سکتے یہ لفظ ایک تڑپ ایک لاحاصل خواہش بن جاتا ہے
جن کے بابا جانی دنیا سے رخصت ہو جائیں ان کو زندگی کی دھوپ، آندھی، طوفان سے ہمیشہ خوف آتا ہے کہتے ہیں نا! انسان مر کر ستارہ بن جاتا ہے میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ انسان کسی پریشانی میں ہو یا خوشی کی کیفیت میں تو نگاہ خود بخود آسمان کی طرف اٹھتی ہے پھر جن کے والدین ستارہ بن گئے ہوں ان کی تو اکثر ہی راتوں میں نگاہیں آسمان پر ستاروں کو ڈھونڈتی ہیں نظر کی فطرت ہے کہ وہ سب سے روشن ستارہ پہلے دیکھتی ہے اور ایسی نظر جس کو ستاروں میں والدین کی تلاش ہو وہ صرف روشن ستارہ دیکھنا چاہتا ہےتا کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو اور نہ ہی روشنی مدھم ہو ستارہ ٹمٹماتا ہے تو لگتا ہے وہ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہیں ایک ہی ستارہ بیک وقت کئی لوگوں کو ان کے اپنوں کی موجودگی کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔اسی طرح جیسے آج کا دن کئی لوگوں کو بیک وقت ان کے “بابا جانی” کی غیر موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔
باپ مرے سر ننگا ہوندا
ویر مرے کنڈ خالی
ماواں بعد محمد بخشا
کون کرے رکھوالی
ﷲ پاک ہمارے والدین کو یا دونوں میں سے جو حیات ہے ان کو لمبی زندگی عطا کرے اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین ثم آمین!