سبین محمود کی سانس تو بند ہو گئی مگر اس کی آواز T2F کی صورت میں آج بھی زندہ ہے

سبین محمود کی سانس تو بند ہو گئی مگر اس کی آواز T2F کی صورت میں آج بھی زندہ ہے
کافی سے اٹھتا دھواں غائب ہوا تو اندازہ ہوا کہ گفتگو اتنی دلچسپ تھی کہ کافی ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ میں نے ایک ہی گھونٹ میں کافی ختم کی تاکہ گفتگو کا دوبارہ آغاز کیا جا۔



گفتگو تھی اریب اظہر سے۔ مقام تھا ٹی ٹو ایف۔



وہی ٹی ٹو ایف جسکی بنیاد 2007 میں سبین محمود نے رکھی۔ آج کے پر تشدد ماحول میں شہر کراچی میں بنایا گیا ایک ایسا کونہ جہاں بات کرنے کی اجازت ہو۔ جہاں بات کہی جائے، بات سنی جائے۔ جہاں ادب کی بات ہو، جہاں علم فنون سے تعلق رکھنے والے افراد اکھٹے ہو سکیں۔ جہاں سنگیت کی محفلیں سجی ہوں۔ جہاں سرور میں جھومنے کی اجازت ہو۔ جہاں رقص سے سماں باندھا جا سکے۔ جہاں ہر فکر، ہر مذہب اور ہر نظریے کے افراد فقط کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، کھل کر جی سکیں۔



2007 میں قائم ہونے والی یہ چھوٹی سی جنت پاکستان کا تو کیا اس دنیا کا بھی حصہ نہیں لگتی۔ اریب بتاتے ہیں کہ جب سبین نے ٹی ٹو ایف کی بنیاد رکھی تو اس کے ذہن میں فقط ایک ایسا کیفے تھا جہاں نوجوان نسل بیٹھ سکے اور اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکے۔


خیابان اتحاد پر قائم کیا جانے والا یہ چھوٹا سا کیفے، ایک عمارت کی دوسری منزل پر واقع تھا جس کے پیش نظر اس کا نام The Second Floor رکھا گیا۔ یہ کیفے T2F کے نام سے جانا اور پہچانا گیا۔



فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا جانے لگا۔ سنگیت سے شغف رکھنے والے دوست اکھٹے ہوتے تو سنگیت کی محفلیں سج جاتیں۔ رقص کرنے کے شوقین محفلیں سجاتے۔



 



کتابیں پڑھی جاتیں، شاعری سنی جاتی۔ جدید سٹینڈ اپ کامیڈی کے مداح اکھٹے ہوتے تو سٹینڈ اپ کامیڈی ہو جاتی۔ مختصر یہ کہ آج مختلف اداروں سے منسلک، اپنے اپنے ہنر میں اپنی مثال آپ فنکاروں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے کام کا آغاز T2F سے کیا۔



آج بھی T2F میں روزانہ کوئی نہ کوئی با مقصد ایونٹ ہوتا ہے۔ کبھی کسی کتاب کی تقریب  رونمائی کی جاتی ہے۔ کبھی خوبصورت رقص، قوالی یا سنگیت کے مداح خوبصورت محفل سجاتے ہیں۔ فلاسفی پڑھنے اور سیکھنے کے شوقین محفلیں سجاتے ہیں۔ سب سے اہم بات، T2F میں سیاست کو سمجھنے اور اس پر بات کرنے والوں کو بھی موقع دیا جاتا ہے۔ وہی سیاست جس پر بات کرتے کرتے الیکٹرانک میڈیا پر کوئی ساتھ بیٹھے ہوئے سیاسی مخالف کو مکا مار دیتا ہے اور کوئی تھپڑ۔ اسی سیاست پر بات ہوتی ہے، بھر پور ہوتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کی پیروی کرنے والے ایسے ایونٹس کا حصہ بنتے ہیں اور تعریف کے قابل ہے یہ جگہ اور اس کے منتظمین، جو ان ایونٹس کو کچھ اس طرح سنبھالتے ہیں کہ بہترین ماحول میں کچھ سنگین مسائل پر گفتگو بھی ہوتی ہے اور مسائل کے حل بھی پیش کے جاتے ہیں۔



ایک اور دلچسپ سلسلہ جس کا آغاز ٹی ٹو ایف میں کیا گیا، وہ تھا سائنس کا اڈا۔ اس ایونٹ کا انقعاد مہینے میں ایک بار کیا جاتا ہے۔ اس ایونٹ میں پاکستان بھر سے سائنس دان تشریف لاتے اور مختلف ٹاپکس پر سحر انگیز گفتگو کی جاتی ہے۔ سائنس کے طالب علم اس ایونٹ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے بے حد پسند کرتے ہیں۔



ٹی ٹو ایف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کیفے کو کسی بڑی جگہ منتقل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ساتھ ہی ساتھ اندازہ ہوا کہ اس کیفے کو چلانے کے لئے فنڈز کی ضرورت ہے۔ جس کے پیش نظر Peace Niche NGO کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔



 

2012 میں ٹی ٹو ایف کو فیز ٹو ایکسٹنشن میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں یہ آج تک قائم ہے۔ ٹی ٹو ایف ایک خوبصورت آرٹ گیلری، لائبریری، بک شاپ، کیفے اور فنون لطیفہ سے منسلک ہر طرح کے ایونٹس کروانے والا مقبول ترین مقام ہے۔





 



 





2014 اپریل کی ایک اداس شام تھی، جب ٹی ٹو ایف سے اپنے گھر کو واپس جاتی سبین کو گولیاں ماری گئیں۔ سبین اپنے خوابوں کو ادھورا چھوڑ اس جہان کو چھوڑ کر ہم سے دور چلی گئیں۔



سبین ہمارا فخر ہیں کیونکہ وہ اس جہان کو بہتر کرنے کے واسطے اپنا ایک بھر پور کردار نبھانے میں کامیاب ہوئیں۔

مصنفہ کا تعلق کراچی سے ہے۔ ابلاغِ عامہ میں گریجویٹ ہیں، ادب سے شغف ہے، کتابوں پر تبصروں کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات پر لکھتی ہیں۔ آمنہ آرٹ، فن، ثقافت اور رقص میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔