سعودی ولیَ عہد کا امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو 10 ارب ڈالر کی پیشکش، رپورٹ

سعودی ولیَ عہد محمد بن سلمان نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو 10 ارب ڈالر کی پیشکش کی ہے، تاہم اس کے لیے فلسطینی لیڈرشپ کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے مجوزہ امن کے منصوبے پر عمل کرنا ضروری ہے جو ’’صدی کے معاہدے‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ دعویٰ  لبنانی  اخبار ’الاخبار ‘‘ نے کیا ہے۔

رملہ میں ایک سینئر فلسطینی اہل کار نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اخبار نے سعودی ولیَ عہد اور  محمود عباس کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اخبار کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق، سعودی ولیَ عہد نے معاہدے کے بارے میں محمود عباس کو آگاہ کیا اور ان سے اسے قبول کرنے کے لیے کہا۔ سعودی ولیَ عہد  نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ سے پوچھا، آپ کے مصاحبین کا سالانہ بجٹ کیا ہے؟ محمود عباس نے جواب دیا، میں بادشاہ نہیں ہوں کہ میرے مصاحبین ہوں۔‘‘

اخبار کے مطابق، اس وقت سعودی ولی عہد نے محمود عباس سے ایک بار پھر استفسار کیا، ’’ فلسطینی اتھارٹی، اس کے وزرا اور ملازمین کی تنخواہوں کے لیے کس قدر رقم درکار ہوتی ہے؟‘‘



محمود عباس نے جواب دیا کہ فلسطینیوں کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سعودی ولیَ عہد نے ان کے اس جواب پر کہا، ’’اگر آپ صدی کے معاہدے کو قبول کر لیتے ہیں تو ہم آپ کو اگلے 10 برسوں کے لیے 10 ارب ڈالر دیں گے۔‘‘

تاہم، محمود عباس نے یہ کہتے ہوئے اس پیشکش کو رد کر دیا کہ اس سے ان کا سیاسی سفر اختتام پذیر ہو جائے گا۔

الاخبار کے مطابق، ولیَ عہد  محمد بن سلمان اور محمود عباس کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو رملہ میں اردن کے سفیر کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔



اردن کے سفیر نے یہ رپورٹس اردن کی وزارت خارجہ کو ارسال کیں جو ان  کی رملہ میں سینئر فلسطینی حکام کی بریفنگز پر مبنی ہیں۔

اخبار نے اردن کے سفیر کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ سعودی ولیَ عہد نے محمود عباس سے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کو وہ زمین دینے پر تیار ہے جہاں فلسطینی پہلے سے رہ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، ولیَ عہد محمد بن سلمان نے محمود عباس سے کہا، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک فلسطین کی مالی معاونت  کرنے کے علاوہ مغربی کنارے میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے بھی مدد فراہم کریں گے جس سے ناصرف ان علاقوں پر فلسطینی کنٹرول بڑھے گا بلکہ معاشی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے محمود عباس سے کہا، ’’ سعودی عرب فلسطینی اتھارٹی کو چار ارب ڈالر کی مدد فراہم کرے گا۔‘‘

محمود عباس نے تفصیل نے ان وجوہات پر روشنی ڈالی ہے جن کے باعث وہ ولیَ عہد کی یہ پیشکش قبول کرنے سے قاصر ہیں۔

اردن کے سفیر کی جانب سے ارسال کی گئی ایک اور رپورٹ میں محمود عباس کے مشیر محمود ہباش کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے مصر کی ناتجربہ کاری اور امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر غیرمعمولی اعتماد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ محمود ہباش نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سعودی عرب نے محمود عباس کو یہ پیغام دیا کہ انہیں ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کر لینا چاہئے۔



محمود ہباش نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’صدی کا معاہدہ اردن، لبنان، شام، سیناء اور حتیٰ کہ خلیجی ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کر دے گا۔ سیناء فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز کے تناظر میں ایک حل کے طور پر ابھرے گا اور مغربی کنارے پر ناصرف اردن بلکہ اسرائیل کی سکیورٹی کونسل کا انتظامی کنٹرول بھی قائم ہو جائے گا۔‘‘

اخبار مزید لکھتا ہے کہ رملہ میں تعینات اردن کے سفیر کی جانب سے اومان میں وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی یہ رپورٹیں اس معاہدے کے مضمرات کے حوالے سے اردن کی تشویش کا اظہار ہیں۔

اردن کی تشویش کی کئی وجوہات ہیں، اگر وہ اپنی سرزمین پر فلسطینیوں کی آبادکاری عمل میں لاتا ہے تو اسے بڑے پیمانے پر فنڈز چاہئیں ہوں گے، یروشلم میں مقدس مقامات کی ذمہ داری سعودی عرب کے سپرد کرنا ہو گی اور ممکنہ طور پر مشرقی سرحد کا کچھ حصہ فلسطینیوں کو دینا ہو گا جس کے بدلے میں سعودی عرب اپنے شمالی علاقوں کی سپردداری اردن کے حوالے کر دے گا۔

امریکا کے عالمی معاہدوں کے حوالے سے خصوصی ایلچی جیسن گرین بلیٹ نے گزشتہ ہفتے ان خبروں کی تردید کی تھی کہ ’’صدی کے معاہدے‘‘ میں اردن، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کو ایک کنفیڈریشن بنانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، شاہ عبداللہ دوم اور اردن امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ انہوں نے اسرائیل، اردن اور فلسطینی اتھارٹی پر مشتمل کنفیڈریشن بنانے کی خبروں کی تردید کرنے کے علاوہ اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ فلسطینیوں کو اردن میں بسانے کے لیے کسی خفیہ منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔