سینئر اینکر کامران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو فوری طور پر رائٹ آف کر دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ کھیل ابھی باقی ہے، ختم نہیں ہوا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کامران خان نے لکھا کہ گذشتہ روز اچانک وزیر اعظم عمران خان کی گرتی مقبولیت کو سہارا مل گیا ہے۔
کامران خان کا کہنا تھا کہ سیاسی منظرنامے پر عمران خان کی بھرپور واپسی ہوئی ہے۔ بجلی بلوں، پیٹرول اور ڈیزل قیمتوں میں کمی وغیرہ وغیرہ، عوام کے لئے بہترین خبریں ہیں۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کے لئے آخری موقع ہے کہ عوام سے تبدیلی کا وعدہ پورا کریں۔
https://twitter.com/AajKamranKhan/status/1498625035942121477
کامران خان نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ عمران خان نے مہنگائی کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔ پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کر کے ماہرین کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔
ایک تو کامران خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حیرت زدہ بہت جلد ہو جاتے ہیں۔ سب کچھ گویا ان کی نہیں کسی اور کی رائے ہو، جو اوپر فیصلہ ہو گیا، اسی کو آ کر بیان کر دیتے ہیں۔ یا کم از کم اشارہ دے جاتے ہیں کہ اوپر کیا سوچا جا رہا ہے۔ اسی لئے شاید ان کو سیاسی حلقوں میں آج کل مرغِ باد نما کہا جاتا ہے، یعنی ان کا رخ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہوا کس طرف کی ہے۔
تاہم، یہی بات تو انہیں مزید اہم بنا دیتی ہے کیونکہ ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست میں آج کل کس کا پلڑا بھاری ہے۔ یہ وہی کامران خان ہیں جو کئی ماہ سے عمران خان کی کارکردگی پر شدید تنقید کر رہے تھے۔ گذشتہ ماہ عمران خان نے بہترین کارکردگی پر وزرا میں انعامات تقسیم کیے تو انہوں نے بمشکل اپنے پروگرام میں مراد سعید کو ملنے والے پہلے انعام پر دی گئی توجیہ پر اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کی تھی۔ پھر وزیر اعظم روس کے دورے پر گئے تو کامران خان نے اس دورے کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے پاکستان کو نقصان ہونے کا احتمال تھا کیونکہ ہم ایک غلط موقع پر غلط جگہ کھڑے تھے۔ لیکن صرف ایک ہفتے بعد آج کامران خان واپس اسی پوزیشن پر آ گئے ہیں جس میں وہ عمران خان سے بہتر عمران خان کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔
تو اس دوران ہوا کیا ہے؟ تین تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سب سے پہلی تبدیلی تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ق کی جانب سے اپوزیشن کو کوئی جواب نہیں ملا، جو کہ جلد متوقع تھا۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ جواب ق لیگ نے نہیں، ن لیگ نے دینا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ق لیگ نے تقاضا کیا تھا کہ نئے سیٹ اپ میں انہیں وزارتِ اعلیٰ دی جائے۔ یہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں تھا کہ ن لیگ اس چھوٹی سی بات پر سارا بنا بنایا کھیل خراب کر دیتی۔ لیکن ساتھ دوسرا مطالبہ یہ بھی تھا کہ ن لیگ کی خواہش کے برعکس عمران خان کے بعد والا سیٹ اپ اگست 2023 تک قائم رہے اور چودھری پرویز الٰہی اس وقت تک وزیر اعلیٰ رہیں۔ اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلیوں کو مدت پوری کرنا ہوگی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اوپر انتخابات ہو رہے ہوں اور صوبائی سطح پر چاروں حکومت قائم رہیں۔ ایسا بھارت میں ہوتا آیا ہے لیکن پاکستان میں اس کی 1988 کے بعد سے کوئی نظیر نہیں ملتی اور 1988 میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں محض دو دن کا وقفہ تھا۔ اس دو دن میں ہی 'جاگ پنجابی جاگ' کا نعرہ لگا اور اسی نعرے کو بینظیر بھٹو سے پنجاب کی حکومت چھین لینے کا الزام دیا جاتا ہے۔ لہٰذا معاملہ یوں ہے کہ ق لیگ کی اس وقت تک کی پوزیشن یہی ہے کہ اگر وہ تحریکِ عدم اعتماد میں شامل ہوں گے تو اس کے بعد آنے والا سیٹ اپ مدت پوری کرے گا۔
مسلم لیگ نواز اس پر راضی نہیں۔ ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش تو ان کے پاس پہلے بھی موجود تھی لیکن اس میں انہیں اپنے ووٹ بینک کا نقصان نظر آتا ہے اور وہ یہ خطرہ مول لینے پر تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کی لاہور میں جگہ جگہ ملاقاتیں یکایک تھم گئی ہیں۔ وہ تین دن سے آرام فرما رہے ہیں۔ چودھری خاندان کو شہباز شریف کی طرف سے جو عشائیے کی دعوت دی گئی تھی، وہ اب بھی وہیں موجود ہے لیکن ق لیگی لیڈرشپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
تو معاملہ یوں ہے کہ ق لیگ سے معاملہ لٹک گیا ہے۔ اور اگر ق لیگ ساتھ شامل نہیں ہوتی تو اس سے تحریکِ انصاف کے اپنے ناراض اراکین بھی یہی تاثر لیں گے کہ فی الحال اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی جگہ پر ہیں۔ یوں یہ عدم اعتماد بظاہر کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ عمران خان چودھریوں کے گھر پہنچ چکے ہیں۔ بلاول لانگ مارچ کر رہے ہیں جس کی عدم اعتماد کی عدم موجودگی میں کوئی تک نظر نہیں آتی۔ نواز شریف ڈیڑھ سال پرویز الٰہی کی بجائے عثمان بزدار کو عہدے پر بحال رکھنے میں ہی اپنا فائدہ دیکھ رہے ہیں۔ اور یوں یہ ہنڈیا جو بڑی منتوں مرادوں سے چڑھائی گئی تھی، نظر یہی آ رہا ہے کہ بیچ چوراہے پھوٹ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامران خان بھی اب پھر سے حکومت کے گن گانے لگے ہیں۔