سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور چودھری برادران کے درمیان ہونے والے ملاقات میں کچھ طے نہیں ہوا۔ دونوں جانب سے اپنی اپنی کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور چودھری برادران میں اگر معاملات واقعی طے ہو گئے تھے تو انھیں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر میڈیا کے سامنے اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم ایک ہیں لیکن انہوں نے تو فوٹو سیشن کرانا تک مناسب نہیں سمجھا۔ عمران خان نے لگ بھگ 35 منٹ ملاقات کی اور چپ چاپ وہاں سے چلے گئے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے ٹیلی وژن سکرینوں پر ٹکرز چلوائے گئے کہ چودھری برادران نے وزیراعظم عمران خان کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ جبکہ چودھری برادران نے اپنا ایک ہینڈ آئوٹ جاری کر دیا جس سکرپٹ ہی مختلف تھا۔ اس پر میں نے چودھری خاندان سے پوچھا کہ عدم اعتماد والی بات آپ نے اس میں کیوں تحریر نہیں کی۔ تو ان کا قسم کھا کر کہنا تھا کہ عدم اعتماد کے بارے میں ایک لفظ تک اس ملاقات میں ادا نہیں کیا گیا۔
مزمل سہروردی نے بتایا کہ عمران خان نے بہرحال ایک فقرہ ضرور ادا کیا کہ چودھری صاحب اب تو 14 سال بعد شہباز شریف بھی آپ کی عیادت کیلئے آ گئے ہیں۔ یہ سن کر سب ہنس پڑے۔ وزیراعظم کا چودھری برادران سے کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ پیٹرول اور بجلی سستی کی جائے تو دیکھیں میں ان کی قیمتیں کم کرکے آپ کے پاس آیا ہوں، میں اب مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے بھرپور اقدامات اٹھا رہا ہوں۔ بس اتنی ہی بات ہوئی اور ختم ہو گئی۔ اگر ان کی ملاقات میں کوئی سیاسی معاملہ طے ہوا تھا تو انھیں کوئی جوائنٹ سٹیٹمنٹ جاری کرنا چاہیے تھی۔ دونوں اطراف اپنی اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور چودھری برادران کے درمیان ملاقات کے بعد فواد چودھری نے ایک چینل کو انٹرویو میں کہا ہے کہ عمران خان کا جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، وہ بس ہم نے ٹیلی وژن پر دیکھا کہ خبر چل رہی تھی کہ چودھری شجاعت کی طبعیت کافی خراب ہے تو خان صاحب نے کہا کہ چلو ان کی عیادت کرنے چلتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے وزیر اطلاعات ہیں جنھیں ملک کے ایک سینئر سیاستدان کے بارے میں اطلاع ٹی وی دیکھ کر پتا چلتی ہے۔ جبکہ کل سے یہ خبر گرم تھی کہ عمران خان جب لاہور جائیں گے تو ضرور چودھری برادران سے ملاقات کرینگے۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں ایک ہفتہ قبل جو گرما گرمی آئی تھی، اب اس کو بریک لگ چکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی گاڑی مجھے اب آگے بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ اس کھیل کے ایمپائر کون ہیں اور اسے کیسے کھیلا جا رہا ہے۔ اس سیاسی کھیل سے ملک میں اب بے یقینی کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ یہ نہ تو ملک کیلئے اچھی ہے اور نہ ہی ہماری معیشت کیلئے۔ تمام سیاسی اداکاروں نے اپنی طاقت ایمپائرز کے حوالے کردی جو ٹھیک نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ واقعی میں ایک حقیقی سیاسی کھیل ہے تو اسے ڈٹ کر کھیلا جانا چاہیے کیوں اشاروں اور سبز بتیوں کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اگر اپوزیشن میں ہمت ہے تو نمبرز گیم پوری کرکے عدم اعتماد لائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ سیاسی جماعتیں جو کر رہی ہیں، اس طرح سے ملک میں جمہوریت نہیں پنپتی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کھیل کوئی اور کھیلا رہا ہے۔