سیاست دانوں کی ڈگڈگی پر ناچتے رہنے سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا

حالیہ الیکشن میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی جو ابھی تک موجود ہے۔ عوام کو ایک مخمصے کا شکار بنا دیا گیا۔ عوام کو انتخابی نتائج میں الجھا کر مہنگائی اور دہشت گردی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جبکہ سیاسی اشرافیہ حکومت حکومت کھیل رہی ہے۔

سیاست دانوں کی ڈگڈگی پر ناچتے رہنے سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا

موجودہ الیکشن میں بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کے تجزیے اور اندیشے غلط ثابت ہوئے۔ ہم سے جس نے بھی پوچھا تھا ہمارا جواب تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آزاد امیدواروں کے بارے میں میری پوسٹ ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ہم نے آزاد امیدواروں کی نئی پارٹی کی خبر دی تھی کہ ایک نئی پارٹی آئے گی۔ باقی پاکستان میں کون سے الیکشن شفاف ہوئے ہیں جس پر بات کی جائے۔ شروع سے ہی یہاں نہ ریفرنڈم ٹھیک ہوئے ہیں اور نا ہی الیکشن شفاف ہوئے ہیں۔ کوئی نہ کوئی اپنے مفاد کے لئے ڈنڈی مار لیتا ہے۔ اس الیکشن میں بھی سلیکشن کی منصوبہ بندی تھی کیونکہ شہباز شریف کے بعد نواز شریف کو کیوں لایا گیا، یہ تو بچہ بچہ جانتا تھا۔

بات یہ ہے کہ جمہوریت پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے، کیونکہ جمہوریت میں کم مارجن والے حکومت بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر 133 سیٹیں حکومت بنانے کے لیے چاہئیں، پی ٹی آئی کی 100 ہیں، ن لیگ کے پاس اس سے کم ہیں، دونوں کو کسی نا کسی کو ساتھ ملانا ہو گا مگر سبھی ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں۔ ان سب کی سیاست ایک دوسرے کے خلاف ہوتی ہے اور پھر حکومت بنانے کے لیے آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس میں نقصان کس کا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے عوام کا مگر عوام یہ بات نہیں سمجھتے۔

دوسری بات مجموعی طور پر 266 سیٹیں ہیں۔ پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلر پارٹی سب نے کچھ نہ کچھ جیتی ہیں۔ اب اکثریتی سیٹوں والی پارٹی پی ٹی آئی ہے، پھر ن لیگ اور پھر دوسری جماعتیں آتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی مخالفت میں پڑنے والے ووٹ دیکھیں تو یہ سب سے زیادہ ہوں گے۔ ن لیگ کے خلاف بھی ووٹ پڑے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی زیادہ تعداد انہیں ناپسند کرتی ہے۔ ملک میں 13 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ کتنے ووٹ ڈالے گئے ہوں گے، کتنے ضائع ہوئے ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کو ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ ملے جبکہ ان کے خلاف ساڑھے 4 کروڑ ووٹ پڑ ے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان سب بڑی پارٹیوں کی مخالفت میں ڈالے گئے ہوں گے مگر جیت اس کی ہوتی ہے جس کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 200 ووٹ ہیں، ایک بندے نے 80 ووٹ لیے، ایک نے 60 لیے، ایک نے 40 اور اگلے نے 10 جبکہ 10 ضائع ہوئے۔ جیت 80 ووٹ والے کی ہوئی تو مخالفت میں کتنے پڑے، 110 کیونکہ 10 ضائع ہوئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میجارٹی کی سنی جاتی کیونکہ زیادہ لوگ جیتنے والے کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جمہوریت بذات خود ٹھیک نہیں ہے۔

الیکشن میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی جو ابھی تک موجود ہے۔ کوئی جیت رہا ہے تو کوئی ہار رہا ہے۔ عوام کو ایک مخمصے کا شکار بنایا گیا۔ اب تک حکومت بن چکی ہے مگر عوام کو رزلٹ میں الجھا کر مہنگائی اور دہشت گردی کا سامنا کروایا جا رہا ہے۔ عوام کو کوئی ریلیف شاید ہی کوئی حکومت دے سکے۔ ہر حکومت نے اپنے فائدے کے منصوبے غیر ملکی اداروں کے زیر اثر چلانے ہیں جس میں تھوڑا فائدہ عوام کا تو زیادہ ان سیاسی بٹیروں کا ہو گا۔ کیونکہ پارٹی کے لوازمات سمیت الیکشن کے اخراجات بھی تو پورے کرنے ہیں۔

پشتو میں کہاوت ہے کہ بلی دوسرے کے فائدے کے لئے چوہے کو نہیں مارتی۔ سیاست دان بھی طاقت، پیسے اور نیک نامی کے حصول اور اپنی دھاک بٹھانے کے لئے ہی الیکشن کا سہارا لیتے ہیں۔ کس جگہ پر ایک عام مزدور الیکشن جیتا ہے؟ کہاں کوئی نانبائی، نائی، دکاندار، عام سا استاد، یونیورسٹی کا پروفیسر یا صحافی سمیت کوئی غریب الیکشن کے لیے کھڑا ہوا اور جیتنے میں کامیاب ہوا؟ یقیناً کہیں بھی نہیں۔ یہ طاقت کی گیم ہے جس کا ایندھن یہی عوام بنتے ہیں جو ان کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ان کے لیے مرتے ہیں، مارتے ہیں۔ بدلے میں انہیں تھوڑی واہ واہ مل جاتی ہے اور یہ خوش ہو جاتے ہیں۔

عوام سے التجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں لوٹ جائیں، اپنے فائدے کے لیے سوچیں، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سوچیں، سیاست ہم جیسے مڈل کلاسیوں کا کام نہیں ہے۔ ہم بچہ جمہورا اور تماشے میں ناچنے والے بندر ہیں جو ڈگڈگی پر ناچتے ہیں اور ڈگڈگی مداری کے ہاتھ میں ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔