کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا کار زار، وزیراعظم عمران خان Man of Crisis رہے ہیں۔ چند دنوں سے وزیراعظم کو پھر سے نئے بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے تعلقات میں تناؤ تو پہلے سے موجود ہے لیکن الیکٹرانک ووٹنگ ایکٹ اس تنازع کو پھر سے ہوا دے رہا ہے۔ نیب آرڈیننس کے حوالے سے ابھی گرد بیٹھی نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بھی سردمہری آنے لگی ہے۔
ریاست کے چوتھے ستون میڈیا سے موجودہ حکومت کے خراب تعلقات اور آئے روز پریس اور سوشل میڈیا پر نئی پابندیوں کی لٹکتی تلوار حالات کو خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ بن رہے ہیں۔
چینی، آٹا، سیمنٹ، سگریٹ اور شوگر مافیاز کے خلاف لمبی لمبی چارج شیٹ پیش کی گئیں لیکن نتیجہ صفر۔ یہ سب مافیا مہنگائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار طبقے کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔
اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ پیٹرولیم اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ تو عالمی نرخوں میں اضافہ ہے لیکن آٹا، چینی اور سبزیاں تو مقامی منڈیوں سے آتے ہیں، ان کی قیمتوں کو آگ لگنا عوام کی سمجھ سے باہر ہے۔
اندرونی حالات کے گمبھیر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خارجہ حالات بھی خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے عظیم ترین اور آہنی ہمسائے چین کے ساتھ کئے گئے سی پیک معاہدے سست روی کا شکار ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چین ان وعدہ خلافیوں پر ناراض ہے۔
دوسری طرف مغربی دنیا سے ہمارے تعلقات بھی شکوک و شبہات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ امریکا، افغان مسئلے پر پاکستان کی طرف سے طالبان کی حمایت پر شاکی نظر آتا ہے، انہی خرابیوں میں سے ایک بڑی خرابی آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے دباؤ ہے۔ یہ معاہدے سیاسی ہوتے ہیں اور جب تک امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل نہ ہو، ان معاہدوں کی تکمیل مشکل ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ہی کی وجہ سے ڈالر کی اڑان اونچی سے اونچی ہو رہی ہے بلکہ روپیہ تیزی سے گر رہا ہے۔ عمران حکومت کے لئے کچھ چیلنجز تو بین الاقوامی ہیں جیسا کہ گھی اور پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں اضافہ۔ ان چیلنجز کا بہتر حکمت عملی اپنانے کے سوا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن بہت سے اندرونی چیلنجز کی وجہ غلط فیصلہ سازی بھی ہے، جیسے وزارت خزانہ کی پہلی ٹیم ناقص تھی اور پھر اس ٹیم نے آئی ایم ایف مذاکرات میں اس قدر تاخیر کی کہ ڈالر کا ریٹ شوٹ کر گیا۔ آٹا اور چینی کا بحران سراسر ناقص منصوبہ بندی اور بدانتظامی کا نتیجہ ہیں۔
ایک طرف مہنگائی نے جینا دوبھر کر رکھا ہے، دوسری طرف بدانتظامی معاملات کو خراب کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت تین سال تک ایک صفحے پر رہے لیکن اب جب داخلی اور خارجی بحران زوروں پر ہے، ایسے وقت میں تعلقات کا بے سرا راگ چھیڑنے کا مطلب سوائے سیاسی ابتری کے کچھ نہیں نکلے گا۔
پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے عالمی فوکس میں ہے۔ افغانستان میں اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو ہم پھر سے ماضی کی طرح ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کی زد میں آئیں گے۔ دوسری طرف طالبان ہم سے امداد کی توقع کریں گے۔
پاکستان چکی کے دو پاٹوں میں پس کر رہ جائے گا۔ عمران خان ماضی میں بھی بحرانوں سے نکلتے رہے ہیں لیکن اب اصل مسئلہ بہت سے بحرانوں کا حل نہ ہونا بلکہ انہیں بغیر حل کے چھوڑنا ہے۔
اپوزیشن سے تعلقات کار کا معاملہ ہو، مہنگائی کے حوالے سے بدانتظامی کا مسئلہ ہو یا اپنی معاشی ٹیم کو بہتر کرنے کا ایشو ہو، عمران خان کو چیمپئن کی طرح پہل کرکے مسئلے حل کرنے ہوں گے ورنہ اگر مسئلے بڑھتے اور گھمبیر تر ہونے کی یہی رفتار رہی تو عمران ان مسئلوں کے نیچے دبتے چلے جائیں گے۔