کرکٹ میں 'دوسرا' کی اصطلاح پاکستانی وکٹ کیپر معین خان اور آپ سپنر ثقلین مشتاق کی متعارف کروائی ہوئی ہے۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ آف سپنر جس کی گیند آف سٹمپ کے باہر گر کر اندر کی طرف آتی ہے، یہی گیند اگر تقریباً اسی ایکشن سے کروائی جائے یعنی ایکشن میں اتنی کم تبدیلی ہو کہ بلے باز اس کو پہچان نہ سکے لیکن گیند ٹھپہ کھانے کے بعد اندر آنے کی بجائے باہر کو نکل جائے تو اسے 'دوسرا' کہا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یہ گوگلی کا الٹ ہے کہ جس میں لیگ بریک باؤلر تقریباً اسی ایکشن سے آف بریک کروا دیتا ہے، یہاں آف بریک باؤلر اسی انداز سے لیگ بریک کروا دیتا ہے۔
ثقلین مشتاق اور معین خان کا یہ غالباً کوڈ لفظ تھا کہ ثقلین کو وہ 'دوسرا' کہتے تھے اور گیند اچانک باہر کو نکلتی تھی۔ اس صورت میں سٹمپ اور بلے کا باہری کنارہ لینے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بعد ازاں اس طرز کی گیند کو بھارتی آف سپنر ہربھجن سنگھ نے بھی بھرپور مہارت سے استعمال کیا۔
پھر پاکستانی سپنر سعید اجمل کے عروج کا دور آیا تو انہوں نے بڑے بڑے بلے بازوں کو اس گیند سے مشکلات میں مبتلا کیا۔ سعید اجمل نے اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کریئر کا آغاز تو پاکستان میں ہی کیا جب انہوں نے 2008 میں بھارت کے خلاف کراچی میں ون ڈے کھیلا لیکن ان کے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے سے پہلے ہی پاکستان سے کرکٹ لمبے عرصے کے لئے رخصت ہو چکی تھی جس کی بحالی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان جس عرصے میں بیرونِ ملک کرکٹ کھیل رہا تھا، سعید اجمل اس کے باؤلنگ اٹیک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، خصوصاً مصباح الحق کی کپتانی میں ان کی باؤلنگ نے پاکستان کو کئی میچ جتوائے۔
تاہم، اپنے عروج کے دور میں ان کے باؤلنگ ایکشن پر آئی سی سی کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا اور ان پر گیند کرنے پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے سعید اجمل کا کرکٹ کریئر وقت سے کچھ پہلے ہی ختم ہو گیا۔ وہ اس پابندی کے بعد ٹیم میں واپس آئے لیکن ان کی باؤلنگ میں وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی اور عمر بھی بڑھتی گئی جس کے بعد انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔
2012 میں ان کا یہ بیان بڑا مشہور ہوا کہ انہوں نے ایک نئی طرز کی گیند 'تیسرا' ایجاد کر لی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم اس وقت پاکستان کے ساتھ کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات آ رہی تھی۔ سعید اجمل کے اس اعلان نے کرکٹ کے حلقوں میں سنسنی پھیلا دی کہ نہ جانے پاکستانی سپن کے جادوگر اب کیا نیا لے کر آ رہے ہیں۔ سیریز آئی اور چلی گئی لیکن کسی کو سمجھ نہ آ سکا کہ آخر 'تیسرا' بال کون سی تھی۔
لیکن اب نو برس بعد 2021 میں سعید اجمل نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ دراصل 'تیسرا' تھا کیا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سعید اجمل نے کہا کہ 2012 میں انگلینڈ پاکستان سے کھیلنے کے لئے دبئی آیا تو مجھے میرے منیجر نے کہا کہ یار سعید بھائی کوئی ایسی بات کرو کہ جس سے انگلینڈ کی ٹیم پریشان ہو جائے، "میں نے تب کہا تھا کہ میرا 'تیسرا' آ رہا ہے"۔
لیکن یہ انہوں نے کہا کیوں تھا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیسرا دراصل میرا بچہ آنے والا تھا دنیا میں۔ "میں نے ڈلیوری کی تو بات ہی نہیں کی تھی۔ میں نے تو بس یہ کہا تھا کہ میرا تیسرا آ رہا ہے"۔
اس موقع پر پینل ہی پہ موجود پاکستان کے سابق اوپنر عمران نذیر نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی نہیں پتہ تھا کہ اس بات کا کیا مطلب تھا کیونکہ ہم تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کوئی 'تیسرا' نام کی بال ہی آ رہی ہے جو سعید اجمل نے ایجاد کر لی ہے۔
https://twitter.com/DaPakiGuy/status/1455211893103149057
یوں بالآخر اس کرکٹ کے سیزن میں کہ جب پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ کے تینوں اہم ترین میچ جیت کر قوم میں خوشیاں بکھیر رکھی ہیں، سعید اجمل کے اس انکشاف سے قومی کرکٹ کا ایک بڑا راز بھی دنیائے کرکٹ پر کھل ہی گیا۔