لاڈلوں کے مائنس پلس ہونے کا کھیل کب تک چلے گا؟

پاکستان میں چونکہ نظریاتی سیاست اب عمران خان کی حمایت یا مخالفت کے گرد گھومتی ہے، جیسے پہلے بھٹو، اس کے بعد بے نظیر اور پھر نواز شریف کے گرد گھومتی رہی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ سیاسی جماعتوں کو کبھی نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے غطیوں کے بعد تجربات سے سیکھا ضرور ہے لیکن سبق حاصل کرنے کی قوت ان میں کم ہے۔

لاڈلوں کے مائنس پلس ہونے کا کھیل کب تک چلے گا؟

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بنگالیوں سے جان چھڑانے میں 25 سال لگے۔ ملک دولخت ہوا تو کچھ دیر آرام کیا، اس کے بعد بھٹو سے جان چھڑا کر دوبارہ اقتدار میں آ کر بیٹھ گئی۔

پنجاب میں بھٹو کی سیاسی جڑیں مضبوط تھیں۔ اسے اکھاڑ کر اس کی جگہ نیا سیاسی پودا لگانا تھا، تا کہ پنجاب کے عوام کو بھٹو کے سیاسی نظریات کی چھاؤں سے نکال کر ایک نئے سیاسی نظریے کی چھاؤں دی جائے۔

ضیاء کامیاب ہوا اور اس کی کامیابی کا یہ سفر آج بھی جاری ہے، محض پودے بدل رہے ہیں۔ ضیاء نے سیاست دانوں کے بارے جو کچھ کہا تھا، کیا وہ اب بھی درست ثابت ہو رہا ہے؟ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔

ہر فوجی حکمران کو سیاسی جواز کی تلاش ہوتی ہے، ضیاء کو بھی تھی۔ بھٹو پاپولر عوامی حکمران تھا، اس کو مار کر بھی اس کی سیاسی جڑیں نکال پھینکنا اتنا آسان نہ تھا۔ لیکن ضیاء الحق نے جو کوشش کی وہ اس میں کامیاب رہا۔ اس نے بھٹو مخالف جن پودوں کی بنیادیں رکھی تھیں بعد میں آنے والوں نے ان پودوں کو مزید طاقتور درخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ملکی اقتدار پر قبضے کے بعد جنرل ضیاء نے بھٹو مخالف سیاسی قوتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن چَس نہ آئی۔

2 جنوری 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی جن 10 بڑی صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا ان میں میاں محمد شریف کی اتفاق فاؤنڈری بھی شامل تھی۔ اس لیے میاں شریف کی ذوالفقار علی بھٹو سے نفرت نیچرل تھی۔

ضیاء الحق نے میاں محمد شریف کو سیاست کی دنیا میں آنے کی دعوت دی اور اتفاق فاؤنڈری بھی واپس کر دی۔ میاں شریف بھٹو کے ہاتھوں کنگال ہوئے تھے، اس لیے ضیاء سے دوستی فطری تھی۔ میاں شریف کا تعلق لاہور سے تھا، ان کا کوئی جاگیردارانہ پس منظر بھی نہ تھا۔ ضیاء کو ایسے ہی آدمی کی تلاش تھی، لیکن میاں شریف نے خود سیاست میں آنے کے بجائے اپنا بیٹا نواز شریف ضیاء الحق کے حوالے کیا۔ اور یوں 25 اپریل 1981 کو نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔

جس دن نواز شریف کو صوبائی وزیر خزانہ بنایا گیا تھا، اس سے ٹھیک دو ماہ پہلے کراچی میں ضیاء الحق کے خلاف بیگم نصرت بھٹو کی سربراہی میں ایم آر ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس لیے ضیاء الحق کو پنجاب میں سیاسی حمایت کی زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن ایم آر ڈی فوری طور پر کوئی نتائج نہ دے سکی۔ 1983 میں جمہوریت کی بحالی کی اس تحریک نے زور پکڑا۔

بجا طور پر سقوط ڈھاکہ کے بعد نواز شریف پہلا لاڈلہ تھا جس نے جنرل ضیاء کو اپنا سیاسی والد اور خود کو ان کا جانشین قرار دیا اور اس کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے عوامی جلسوں میں اس کا ببانگ دُہل اظہار بھی کیا۔

نواز شریف نے جنرل ضیاء کے دست شفقت سے پنجاب میں اپنی سیاسی جڑیں مضبوط کیں۔ پیپلز پارٹی اور دیگر ضیاء مخالف جماعتیں پابندی اور جبر کے باعث مکمل تنہائی کا شکار تھیں۔ اب میدان کھلا تھا اور کھلاڑی کھیلے جا رہا تھا۔

غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو نواز شریف 9 اپریل 1985 کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد غلام اسحاق خان نے ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان کیا۔

1988 کے انتخابات کے وقت حمید گل کا تخلیق کردہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے سامنے آیا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ پیپلز پارٹی سادہ اکثریت لینے میں کامیاب ہو گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا یہ حال تھا کہ وہ وزیر خارجہ بھی اپنی مرضی کا نہ لگا سکیں۔ ان کی حکومت بمشکل 21 ماہ تک چل سکی۔ 5 اگست 1990 کو جب قومی اسمبلی توڑی جا رہی تھی، اس دن دوپہر کو ہی ملتان کے اخبارات کو نواب زادہ نصراللہ خان کا بیان مل چکا تھا جو بے نظیر حکومت کے خاتمے کے حوالے سے تھا۔ اسی دن نوائے وقت نے حکومت ختم کرنے کے حوالے سے لیڈ سٹوری بھی شائع کی۔ بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان سے رابطہ کیا لیکن اس نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا غیر آئینی کام نہیں کرے گا۔ شام پانچ بجے کے بعد بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں تمغہ جمہوریت لینے والا آرمی چیف اسلم بیگ اور دیگر چیفس ایوان صدر میں موجود تھے۔ اسمبلی توڑ دی گئی اور غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیر اعظم کا حلف لے رہے تھے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ملک معراج خالد کو اس صورت حال کا پتہ تھا لیکن اس نے اپنی وزیر اعظم کو کچھ نہیں بتایا۔

غلام اسحاق خان نے کرپشن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی اور انتخابات کے بعد نواز شریف جیت کر اقتدار میں آ گئے۔ نواز شریف کو بھی کرپشن کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا، پھر بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ ان تینوں حکومتوں کے خاتمے میں ضیاء الحق کی جانب سے آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم کا کردار مرکزی تھا۔ جب 1997 میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو اسے احساس ہوا کہ وہ تو صدر کی مرضی کے بغیر کسی صوبے میں اپنا گورنر تک مقرر نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آٹھویں ترمیم ختم کر دی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس فیصلے کی غیر مشروط حمایت کی۔ 12 برس بعد ضیاء کی آئین میں ڈالی گئی یہ ترمیم نواز شریف سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر ختم کر رہا تھا۔ اس بار ضیاء کے بیٹے نے بھی اپنے ابا کی ترمیم کو آئین سے نکالنے کی حمایت کی۔ اس ترمیم کے خاتمے سے ایوان صدر کمزور اور وزیر اعظم طاقتور بن گیا۔

شہباز شریف کی سفارش پر جنرل مشرف کو آرمی چیف لگایا گیا۔ کچھ عرصے بعد مشرف نے اپنی اصلیت دکھانا شروع کی تو نواز شریف نے ایک اور وفادار کو ڈھونڈ نکالا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا ایک آئینی فیصلہ بے ڈھنگے انداز سے کیا اور یہ فیصلہ نواز شریف کو لے ڈوبا۔

درج تاریخی واقعات کے مطابق جنرل پرویز مشرف اور ان کے حامی فوجی افسران پہلے ہی ملک پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انہیں جواز کی تلاش تھی اور نواز شریف نے وہ جواز فراہم کر دیا تھا۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک الگ تاریخ ہے، لیکن نواز شریف کے نام کے نیچے سرخ لکیر کھینچ دی گئی۔ نوازشریف سیاسی طور پر اکیلے تھے، پارٹی ٹوٹ چکی تھی اور پھر وہ ایک معاہدے کے تحت اپنے خاندان سمیت جیل سے نکلے اور سعودی عرب چلے گئے۔ اب نواز شریف لاڈلہ نہیں رہا تھا۔

کچھ سال بعد حالات تبدیل ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وطن واپس آ چکے تھے۔ 2006 میں ان دونوں جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین میثاق جمہوریت کے معاہدے کے بعد ایک تیسری سیاسی قوت کو بنانے پر کام شروع کیا گیا۔

عمران خان ملکی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کا ایسا لاڈلہ تھا جس کا شکوہ ماضی قریب میں قومی اسمبلی کے فلور پر شہباز شریف بھی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ 'اگر اتنی شفقت ہم پر ہوتی تو ہم ملک کا نقشہ ہی تبدیل کر دیتے'۔

عمران خان کیلئے ملک کی باقی جماعتوں کے خلاف جس انداز سے عدالتوں، میڈیا اور دیگر اداروں کو استعمال کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لاڈلے عمران خان کے نخروں کا عالم یہ تھا کہ دوسرے سال ہی جب اس کے رویوں سے اتحادی اور اس کے اپنے ارکان نے بجٹ کے موقع پر آنکھیں دکھائیں تو عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو کہا کہ بجٹ پاس کرانا آپ کا کام ہے، میرا نہیں۔ یہی وہ لاڈلہ تھا جو کبھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن اور قوم کا باپ کہتا تو کبھی اسے میر جعفر اور جانور قرار دیتا۔ لیکن پھر بھی نخرے برداشت ہوتے رہے۔ اس کا بھی من بڑھتا رہا اور آخرکار 9 مئی 2023 آیا۔ جب وہ گھر میں گھسا تو پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پارٹی تتر بتر کر دی گئی۔ جو رہنما پارٹی میں موجود ہیں وہ کھل کر سیاسی سرگرمیاں نہیں کر سکتے۔ میڈیا پر جتنا کنٹرول اسے دلایا گیا تھا، وہ یکسر الٹ ہو چکا ہے۔ پارٹی کے اندر موجود لیڈرز کے درمیان بے اعتباری بڑھ گئی ہے۔ ملک کی ساری پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے لاڈلے کی کٹائی کر رہی ہیں۔

یہی کچھ جنرل ضیاء نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا تھا۔ تب باقی جماعتیں تالیاں بجا رہی تھیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر دیگر جماعتیں جشن منا رہی تھیں۔ اب عمران خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے تو ایک مرتبہ پھر باقی سب مل کر خوشیاں منا رہے ہیں۔

نواز شریف نے آرمی چیف کو تبدیل کرنے اور تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد اسی جرنیل پر بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کیلئے عدالت قائم کرنے کی جو گستاخی کی اس پر کبھی بھی اسے دل سے معاف نہیں کیا گیا۔

نواز شریف لاڈلہ تھا، لیکن عمران خان لاڈلہ ہونے کے ساتھ ساتھ معشوق بھی تھا۔ عاشق اور معشوق کے درمیان جھگڑا ہو تو جان لیوا ہوتا ہے اور اگر معاملہ بننے پر آئے تو لمحے بھی نہیں لگتے۔

یہ بات نواز شریف کو یاد رکھنی چاہئیے کہ جس انداز میں انہیں آج کل دولہا بنا کر عدالتوں سے سزا کی معافیوں کی سلامیاں دلوائی جا رہی ہیں، کل دولہا تبدیل بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی انہی عدالتوں سے سلامیاں لیتا پھرے گا۔

مانا کہ نواز شریف تمام یقین دہانیوں کے ساتھ ہی ملک پہنچے ہیں، انہیں الیکشن سے قبل ہی بتا دیا گیا ہے کہ ان کو چوتھی بار ملک کا وزیر اعظم بنانے کا اعزاز بھی بخشا جائے گا، لیکن وہ چوتھی بار وزیر اعظم بن کر کون سا تیر مار لیں گے؟ اگر مار بھی لیا تو وہ اپنی آئینی مدت بھی پوری کریں گے کہ نہیں، کسی کو یقین نہیں۔

پاکستان میں چونکہ نظریاتی سیاست اب عمران خان کی حمایت یا مخالفت کے گرد گھومتی ہے، جیسے پہلے بھٹو، اس کے بعد بے نظیر اور پھر نواز شریف کے گرد گھومتی رہی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ سیاسی جماعتوں کو کبھی نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے غطیوں کے بعد تجربات سے سیکھا ضرور ہے لیکن سبق حاصل کرنے کی قوت ان میں کم ہے۔

انہیں یہ خوف گھیرے ہوئے ہے کہ اگر انہوں نے اصول کو بنیاد بنا کر اپنی جگہ چھوڑ دی تو پیچھے کھڑا ہوا ان کی جگہ لے لے گا۔

جاتے جاتے جنرل ضیاء کی یہ بات بھی سن لیں اور پھر سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

اس نے 1978 میں کہا تھا کہ 'آئین کیا ہے، چند صفحے۔۔ اگر میں اسے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دوں اور ایک نیا نظام نافذ کر دوں تو وہ سب کو ماننا پڑے گا۔ سیاست دان اور جغادری لیڈر پھر بھی دُم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے'۔

ضیاء نے ٹھیک کہا یا غلط، اس کا فیصلہ آپ کریں لیکن یہ طے ہے کہ دم ہلانے والا سلسلہ جس دن رکا اس دن پاکستان میں جمہوریت اپنی توقیر بحال کر لے گی۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔