ملکی سیاست میں بے نظیر بھٹو کی کمی

ملکی سیاست میں بے نظیر بھٹو کی کمی
آج 21 جون ہے جس دن پاکستان میں ایک ایسی عظیم لیڈر نے جنم لیا جسے تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔ باپ کے عدالتی قتل کے بعد لاڈلی پنکی نے کم عمری میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور وقت نے اس پنکی کو بے نظیر بنایا۔ آج بے نظیر بھٹو کا جنم دن ہے لیکن یہ اس ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔

ملکی سیاست میں انقلاب برپا کر دینے والے شہید بھٹو نے عوام کے حقوق کے لئے اپنی جان قربان کر دی مگر وقت کے جابر ڈکٹیٹر کے آگے سر نہیں جھکایا۔ بھٹو کو پھانسی دلوانے کے بعد ڈکٹیٹر ضیا نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر ظلم و ستم کیا اور جعلی مقدمات بنا کر انتقامی سیاست کا آغاز کیا۔ ویسے تو ہر فوجی ڈکٹیٹر نے ملک کو نقصان پہنچایا لیکن میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ اس ملک کو مذہبی انتہاپسندی اور نفرت کی آگ میں دھکیلنے والا ڈکٹیٹر ضیا تھا جس کے نام کے ساتھ حق لگانا ناحق سمجھتا ہوں۔ جب بڑے بڑے جمہوری چیمپیئن ڈکٹیٹر ضیا کی چاپلوسی کر رہے تھے تب دلیر باپ کی بہادر بیٹی نے اس ظالم ڈکٹیٹر کو للکارا۔

پنکی کو بے نظیر بننے کے لئے ڈکٹیٹر ضیا کے مظالم برداشت کرنے پڑے اور عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا پڑی اور اس بے مثال جدوجہد نے ہی بے نظیر بھٹو کو بے نظیر بنایا۔ آج بھی ملکی سیاست میں شہید بے نظیر بھٹو کی کمی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی کمی تو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی مگر بے نظیر بھٹو کی آواز اب بھی قومی اسمبلی میں گونجتی ہے۔ بلاول کے روپ میں بے نظیر بھٹو آج بھی مظلوموں، پسے ہوئے طبقات اور غریبوں کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

مصنف صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر @UmairSolangiPK کے نام سے لکھتے ہیں۔