پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی؛ نگران وزیر اعظم

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں اگر سپریم کورٹ کسی خاص گروہ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو حکومت کیا کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی کیس زیر سماعت ہے اور کوئی فیصلہ نہیں آیا تاہم اگر ایسا کوئی فیصلہ آتا ہے تو حکومت اس پر عمل درآمد کروائے گی۔

پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی؛ نگران وزیر اعظم

ملک میں عام انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے اور حکومت شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، تمام سیاسی جماعتوں کو اس وقت لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب ہے، اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سیمت تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں حصہ لیں گی، ایس آئی ایف سی کسی ملک کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرنے جا رہی جو عوام کے مفاد میں نہ ہو، میری نظر میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی میں کوئی فرق نہیں، دونوں دہشت گرد تنظمیں ہیں، ڈیورنڈ لائن عالمی سرحد ہے جسے اقوام متحدہ اور ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، کسی پناہ گزین کو ملک سے نہیں نکال رہے بلکہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو بھیج رہے ہیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کسی گروہ پر پابندی لگانے کا کہے گی تو حکومت عمل درآمد کرے گی۔ یہ کہنا ہے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا جنہوں نےبدھ کے روز نیا دور ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیا۔

نیا دور ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں ایڈیٹر انچیف رضا رومی اور سینیئر صحافی افتخار احمد نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے مختلف سوالات کیے۔ عام انتخابات کے انعقاد اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے سے متعلق سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق عام انتخابات منعقد کروائے گا۔ جہاں تک انتخابات کے شفاف ہونے کی بات ہے تو ہم اس کو یقینی بنائیں گے مگر ان کے نتائج کو ماننا یا نہ ماننا سیاسی جماعتوں کی صوابدید ہو گی۔ اگر سیاسی جماعتیں ان نتائج کو تسلیم نہیں کرتیں تو یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

ان کے مطابق اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی۔ کس سیاسی جماعت کو کون سا انتخابی نشان ملتا ہے، یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ تمام سیاسی جماعتوں کو دستیاب ہے۔ بعض اوقات سیاسی جماعتیں ایسی باتیں کر کے وکٹم کارڈ کھیل رہی ہوتی ہیں اور اس سے انہیں زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں۔

اس وقت کوئی ایسا سیاسی سوال ہمارے سامنے نہیں ہے جس پر ہم تمام سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس کروا دیں۔ بعض سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حالات موافق نہیں ہیں اور یہ ہر الیکشن سے پہلے ہوتا ہے۔ نگران حکومت کے وجود سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ہمارے ہاں سیاسی نظام اگر مضبوط ہو جاتا ہے تو پھر نگران حکومت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نگران حکومتوں کے ساتھ ہم جمہوریت کے استحکام کا سفر طے نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے معاملات اسمبلیوں میں زیر بحث لائے جانے چاہئیں۔

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں اگر سپریم کورٹ کسی خاص گروہ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو حکومت کیا کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ابھی کیس زیر سماعت ہے اور کوئی فیصلہ نہیں آیا تاہم اگر ایسا کوئی فیصلہ آتا ہے تو حکومت اس پر عمل درآمد کروائے گی کیونکہ آئین کے تحت حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کی پابند ہے۔

نوجوان نسل کے سسٹم پر کم ہوتے اعتماد کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے لمز جانے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ میں مکالمے پہ یقین رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جب تک آپ انگیج نہیں کریں گے نوجوان نسل کا رویہ نہیں تبدیل ہو سکتا۔ یہ سوچ کہ میں ریاست کے سامنے کھڑا ہوا، وزیر اعظم کے سامنے کھڑا ہوا، ان چیزوں کا ایک رومانس ہے اور میں بھی دور طالب علمی میں اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔

نگران وزیر اعظم کے مطابق ہمارے ہاں 'کون کہہ رہا ہے' زیادہ اہمیت اختیار کر رہا ہے جبکہ 'کیا کہہ رہا ہے' کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کھلے ذہن کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں ہو رہا۔ ہم سب لوگوں کو نوجوانوں کے ساتھ انگیج ہونا پڑے گا، کبھی سختی دکھانی ہو گی اور کبھی پیار سے سمجھانا ہو گا۔ نوجوانوں کو بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ٹوئٹر پر ننگی گالیاں دینے سے کسی مسئلے کا حل نہیں نکلتا، بلکہ اس سے آپ دوسروں کو اشتعال دلاتے ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہئیے ورنہ ایسا کرنے والوں کی سیاسی صحت پر برا اثر پڑے گا۔

بلوچستان کی سیاسی اور معاشی صورت حال سے متعلق سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان کی نوجوان نسل دل سے مانتی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ سیاست دانوں نے رائے عامہ ہی اس بنیاد پر ہموار کی ہے اور لوگ اس وکٹم کارڈ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس میں زیادہ قصور بلوچستان کے ان سیاست دانوں کا ہے جو مرکز کی سیاست کرتے رہے مگر اپنے مفادات کو مدنظر رکھا۔

آئین پاکستان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی بھی فرد یا جماعت مسلح ملیشیا نہیں رکھ سکتی۔ سردار اختر مینگل مختلف فورمز پہ آئین کی بات کرتے ہیں مگر اس جنگ کو لے کر چل رہے ہیں۔ ان کے بھائی لشکر بلوچستان چلاتے ہیں جو ایک مسلح گروہ ہے۔ ان مسلح گروہوں نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس کا مداوا کیسے ہو گا؟

نگران وزیر اعظم نے مزید کہا تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی میری نظر میں ایک جیسے گروہ ہیں۔ ہمارے دانشوروں کا ایک طبقہ ٹی ٹی پی کو تو دہشت گرد سمجھتا ہے مگر بی ایل اے کو سیاسی سوال مانتا ہے تو یہ نکتہ نظر درست نہیں ہے۔ تشدد کو کسی بھی حالت میں عقلی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا ورنہ ٹی ٹی پی کے پاس بی ایل اے سے بھی مضبوط بیانیہ موجود ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کاری پر عوام کو اعتماد میں لینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے تحت ابھی تک حکومت نے کسی ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ ماہرین کی سطح پر کام جاری ہے۔ یہ معاہدے کسی کارٹیل کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوں گے بلکہ عوام کے لیے ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں مختلف طبقات کے مابین ایسی بے چینی پیدا ہو گی جو خطرناک نتائج لائے گی۔

غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی ہوئی، ان سے رشوت لینے کی کوشش کی گئی یا انہیں ہراساں کیا گیا تو ہم ملوث لوگوں کو سخت سزائیں دیں گے۔ ہم پناہ گزین لوگوں یا مہاجرین کو قطعاً واپس نہیں بھیج رہے، ہم غیر قانونی مقیم لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ سمگلنگ کے خلاف اقدامات کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، کئی شہروں میں بند پڑی فیکٹریوں کو آرڈر ملنا شروع ہو گئے ہیں۔