''کرفیو کے خاتمہ پر دہلی بھی دھماکوں سے گونج سکتا ہے''

''کرفیو کے خاتمہ پر دہلی بھی دھماکوں سے گونج سکتا ہے''
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم پاکستان کی تقریر دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ شدتِ غم کے مارے مظلوموں کے لیے حق گوئی واقعی ہی ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا۔ فی البدیہہ تقریر میں عمران خان نے دنیا کو دو ٹوک انداز میں باور کروایا کہ ہم خطے میں امن کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوششوں کو کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔ ہمارا مقصد خطے میں زندگی رواں رکھنے کی عملی کوشش ہے، اسے بزدلی تصور نہ کیا جائے۔

عمران خان نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی اور دنیا کو بتایا کہ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے جس کا مطالبہ کرنا یا اس واسطے علم حق بلند کرنا کوئی جرم نہیں۔ وزیراعظم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک برتنے پر مغرب و امریکہ کے مشکوک کردار کو بھی اقوام عالم کے سامنے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جو کہ قابل ستائش ہے۔

تاریخ میں وزیراعظم سے پہلے بیشتر عالمی رہنما اقوام متحدہ کے انتہائی جانبدارانہ رویہ پر گرج برس چکے ہیں۔ اس حوالے سے قذافی، بھٹو، یاسر عرفات قابل ذکر ہیں۔ ادھر سر ظفر اللہ ہی کی تقریر کو دیکھ لیجیے، جنہوں نے سیکیورٹی کونسل کے سامنے کئی گھنٹوں تک کشمیر کے مقدمہ کا دفاع کیا اور اس تصفیحہ طلب مقدمہ کے پرامن حل یعنی حق خودارادیت کی قرارداد منظور کروائی اور کشمیریوں کے لیے پہلی بار سلامتی کونسل نے عہد کیا کہ انھیں حصول حق کے لیے موقع فراہم کیا جائے گا۔

یہ انتہائی نازک دور تھا جب نوزائیدہ مملکت پر جنگ تھوپ دی گئی تھی۔ تاریخ شاہد ہے اس وقت کے بھارتی سفارتکاروں نے ظفراللہ کے پرپوزل کو سراہا اور اسی بدولت ہی دونوں طرف کی حکومتیں جنگ بندی کے منصوبے پر عملدرامد کے لیے آمادہ ہوئیں۔ میرے خیال میں بھارت کی قیادت اس طاق میں رہی کہ کشمیر کے لوگ گزرتے وقت کے ساتھ اپنے بیانیے سے ہٹ جائیں گے اور تسلط کو آسانی سے تسلیم کر لیا جائے گا۔ اسی واسطے معاملے کو طوالت دینے کے لیے ہندوستان کی عملی کشمیر پالیسی اس کی خارجہ پالیسی سے یکسر مختلف رہی۔

جوں جوں وقت گزرتا رہا ہندوستان اپنے کیے گئے وعدوں سے بھاگتا رہا۔ جیسا کہ ہندوستان کے فاؤنڈنگ فادر مہاتما گاندھی نے 10 اکتوبر 1947 کو حق خوداریت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے لوگوں سے رائے لینی چاہیے اگر وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ، تو انھیں ایسا کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

اس سے قبل 2 نومبر 1947 کو جواہر لعل نہرو اسمبلی سے کہہ چکے تھے کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا موقع دیا جائے گا۔ جبکہ 31 اکتوبر 1947 کو لیاقت علی خان نے اس اقدام کو سہراتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا اور کشمیری آپ کے اس اقدام کے منتظر رہیں گے۔ ہندوستان کو یقین تھا کہ شیخ عبداللہ کو کشمیر میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن، جلد ہی نہرو حکومت کو احساس ہوا کہ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے تو پینترا بدل لیا۔ چاپلوس حکومتِ ہند نے اقوام متحدہ جانے کا اعلان کیا۔ یوں 13 اگست 1948 کو سلامتی کونسل نے ہندوستان کی درخواست پر کشمیر پر پہلی قرارداد منظور کی اور دونوں ملکوں کو فوجیں نکالنے کا حکم دے دیا۔ جس پر دونوں آمادہ نہ ہو سکے۔ بہرحال یکے بعد دیگرے پاکستان کے اعتراض کو مانتے ہوئے سلامتی کونسل نے حق خودارادیت کا وعدہ کیا جبکہ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے نہرو نے 30  اکتوبر 1948 کو شیخ عبداللہ کے ساتھ ساز باز کر کے ہندوستان کی حمایت یافتہ حکومت قائم کروا لی، جنگ فی الفور روک دی گئی۔ 65 فیصد حصہ ہندوستان کے زیر تسلط چلا گیا اور  باقی حصہ پاکستان کے زیر انتظام رہ گیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب ہندوستان نے جبری تسلط قائم کیا اور بین الاقوامی فورم یعنی اقوام متحدہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ شیخ عبداللہ کی ہٹ دھرمی اور ادھر چوہدری غلام عباس کی قائداعظم سے وفاداری نے ثابت کیا کہ کشمیری قیادت میں آپس کی غلط فہمیوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ مگر بھٹو نے پھر اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے 1971 میں گرج برس کر اقوام متحدہ کو گہری نیند سے جگانے کی کوشش کی تھی اور جاتے جاتے کہہ گے تھے کہ اقوام متحدہ نے ہندوستان کے تسلط کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ہم نہیں مانتے اور جنگ لڑیں گے۔ ایسا تو نہ ہوسکا مگر پاکستان بطور وکیل اپنے فرائض ادا کرتا رہا۔

شاید اس سے بدترین مثال نہیں ملتی کہ آزادی کی تحریک امن کا راستہ مانگے اور دشمن و منصف اسے کمزوری سمجھیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا وہ حصہ جس میں انھوں نے شدت پسندی کے خطرے کا اشارہ کیا۔ شاید یہ ہندوستان کے لیے منہ مانگا عذاب بن جائے۔ یاد رکھیے گا کرفیو کے خاتمہ پر دہلی بھی دھماکوں سے گونج سکتا ہے۔ جس کا الزام پاکستان پر دھر کر طبل جنگ بجایا جاسکتا ہے، کیونکہ یہی حقیقت ہے۔ اس سے سردست انکار ممکن نہیں۔

لکھاری آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ چھ سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں