عجیب مصیبت میں پڑ گئی ہے حکومت۔ سارا بیانیہ ریزہ ریزہ ہو رہا ہے اور ان بیچاروں کی حالت سوچی پئے آں ہن کی کریے والی ہے۔ شہباز شریف کے کیس سے انہوں نے لاتعلقی کا صریح اعلان فرما دیا ہے۔ حکومتی وزرا اور مشیران کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کے اکاؤنٹس کی لندن میں جو تحقیقات ہوئیں اور ان میں سے کچھ نہیں نکلا، اس کا حکومتِ پاکستان سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں تھا۔ ہم نے چونکہ یہ تحقیقات شروع نہیں کروائی تھیں، اس لئے اس کے نتیجے سے بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کچھ اینکر حضرات بھی اس بھونڈی دلیل میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ن لیگی نمائندوں سے ٹاک شوز میں پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ تحقیقات حکومت نے شروع کروائی تھیں؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ حکومت کے کہنے پر شروع ہوئیں تحقیقات یا از خود ہوئیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے پوری مدد کی۔ کاغذوں کے پلندے بھیجے، نیب لاہور کے ڈی جی نے برطانیہ میں تفتیشیوں سے ملاقات کی، اور آخر میں آپ کی بھیجی ہوئی تمام تر معلومات سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے تفتیشی افسران کو کچھ نہیں ملا۔ یہ یا تو حکومتی بیانیے کی شکست ہے یا پھر کم از کم اس کے ذمہ داران جو احتساب کی مہم کے سرخیل ہیں، ان کی نااہلی ہے۔
اب اس سبکی سے لڑنے کے لئے حکومتی نمائندے جو ٹاک شوز میں آ رہے ہیں وہ صحافیوں سے لڑ بھڑ رہے ہیں۔ شہباز گل صاحب لندن میں دنیا نیوز کے رپورٹر اظہر جاوید پر جانبداری کا الزام لگاتے لگاتے خود پروگرام اینکر کامران شاہد سے الجھ بیٹھے۔ ان سے پہلے حکومت کے ایک دیرینہ ہمدرد برگیڈیئر (ر) فاروق حمید مزمل سہروردی اور کوثر کاظمی سے الجھ بیٹھے۔ ان کو جانبداری کے طعنے علیحدہ دیے اور ساتھ نیشنل کرائم ایجنسی پر بھی لعنت بھیج دی۔ انہوں نے تو کہا کہ ہو سکتا ہے نیشنل کرائم ایجنسی دراصل پاکستان سے آئے ہوئے روپیوں کو اپنے ملک سے باہر نہ جانے دینا چاہتی ہو، اور اس لئے اس نے شہباز شریف کا جرم ہی نہ پکڑا۔
اب یہ دلیل تین حوالوں سے انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ پہلی یہ کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی جس کی ساکھ دنیا بھر میں مثال مانی جاتی ہے، اس پر سوال ایک ایسا شخص اٹھا رہا ہے جو خود نیب جیسے ادارے کا پراسیکیوٹر رہا ہے جسے خود پاکستان کی اپنی سپریم کورٹ سیاسی انجینیئرنگ میں استعمال ہونے والا ایک ادارہ قرار دے چکی ہے۔ دوسری یہ کہ حکومت کا مسلسل دعویٰ ہے کہ تحقیقات اس نے شروع نہیں کیں اور نہ ہی اس کے کہنے پر شروع کی گئیں۔ تو اگر حکومت نے شروع نہیں کیں اور نیشنل کرائم ایجنسی شہباز شریف کے پیسے کو برطانیہ میں ہی رکھنا چاہتی تھی تو اس نے خود سے تحقیقات شروع کیوں کر دیں۔ تیسری دلیل وہ تھی جو پروگرام میں بیٹھے مزمل سہروردی صاحب نے دی کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے 190 ملین پاؤنڈ ملک ریاض خاندان سے لے کر حکومت پاکستان کے حوالے کیے، وہ بھی تو برطانیہ ہی میں سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ بلکہ ہمت تو حکومتِ پاکستان میں نہیں تھی کہ ملک ریاض کے خلاف اتنا بڑا ثبوت ہاتھ آنے کے بعد اس کے خلاف قانونی کارروائی کرتی بلکہ اس نے تو الٹا وہاں سے آئے پیسے ایک اور جرم میں ہوئے جرمانے کی مد میں جمع کروا دیے۔
دوسری طرف شہزاد اکبر نے دی نیوز میں مرتضیٰ علی شاہ کی چھپنے والی خبر پر پریس کانفرنس میں بیٹھ کر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ علی شاہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف بری ہو گئے جب کہ برطانیہ کی عدالت نے شہباز شریف کا نام ہی نہیں لیا۔ رپورٹ میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ انہوں نے یہ تک اعلان کر دیا کہ مرتضیٰ علی شاہ پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھتے ہیں اور شہزاد اکبر ان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ مرتضیٰ علی شاہ نے جہاں دی نیوز میں باقی الزامات کے جوابات دیے ہیں وہیں انہوں نے شہزاد اکبر کو دعوت دی ہے کہ وہ ان کی خبر پر لندن ہائی کورٹ میں اپیل کریں اور وہ بھرپور طریقے سے اپنا دفاع کریں گے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ خبر کی صداقت نہ صرف ثابت کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے لئے دستاویزات بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ شہزاد اکبر صاحب کو الزام لگا کر اپنی ہی جماعت کے چار سپورٹرز کی مزید سپورٹ سے کیا مل جائے گا۔ ووٹ تو ایک ہی رہنا ہے۔
سب سے مضحکہ خیز صورتحال شہباز گل صاحب کی دنیا نیوز کے پروگرام میں تھی جہاں انہوں نے دنیا نیوز کے لندن سے correspondent اظہر جاوید پر الزامات لگانا شروع کر دیے کہ یہ عمران خان کے خلاف ٹوئیٹس کرتے تھے، فلاں ٹوئیٹ میں ان کا یہ اینگل تھا اور فلاں ٹوئیٹ میں ان کا لہجہ ناپسندیدگی سے دیکھا گیا۔ ایک لمبی رام کتھا کہ بعد کامران شاہد نے انہیں جواب دیا تو صاف ظاہر تھا کہ کامران شاہد صاحب بھی اس رویے سے تنگ آ چکے ہیں جس کی طرف آزاد صحافی پچھلے کئی ماہ سے اشارہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے فسطائی رویوں کی طرف دھیان دلایا، انہوں نے کہا کہ آپ صحافیوں کو جھوٹا کہتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچر کا الزام لگایا اور بعد میں جب عدالت نے سوال کیا تو صاف مکر گئے کہ وہ تو ایک سیاسی بات تھی۔ شہباز گل نے دعویٰ کیا کہ جہانگیر ترین کو زراعت پر وزیر اعظم کی خصوصی ٹاسک فورس سے ہٹا دیا گیا ہے، جب کہ وہ کبھی اس ٹاسک فورس کے سربراہ تھے ہی نہیں اور اس بات کی تصدیق خود متعدد حکومتی وزرا کر چکے تھے لیکن شہباز گل نے یہ فیک نیوز دی جس پر میں انہیں جھوٹا نہیں کہہ رہا اور نہ ہی یہ اس وقت موضوع ہے لیکن انہوں نے صحافیوں سے متعلق لب و لہجے پر واضح الفاظ میں شہباز گل کو صاف کہا کہ آپ کے رویے فاشسٹ ہیں اور اب آپ چاہتے ہیں کہ ہمارے لہجے بھی آپ کی مرضی کے مطابق ہوں۔ شہباز گل نے جواب دینا چاہا تو پھر کہہ دیا کہ آپ سے غلط بیانی کروائی گئی جس پر کامران شاہد نے کچھ دیر مزید ان کی خبر لی۔
لیکن حکومت کی ہر غلطی کے لئے چونکہ اسے عادت پڑ چکی ہے کہ کسی دوسرے پر ہی الزام دھرنا ہے اور یہاں نیشنل کرائم ایجنسی کا معاملہ ہے، برطانوی اداروں پر انگلی اٹھائی تو نقصان کا احتمال ہے، لہٰذا زور غریب صحافیوں پر ہی چلتا ہے جو محض رپورٹنگ کر رہے ہیں اور حکومت ان کی زبانیں بند کروانے میں ناکامی پر جزبز ہو رہی ہے۔ یہ تو بیچارے پاکستان کے مجبور میڈیا مالکان ہیں جنہوں نے یہیں رہ کر کام کرنا ہے ورنہ اس قسم کے الزامات پر لندن کی عدالتوں میں ان لوگوں پر مقدمات قائم ہونے لگ گئے تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم، ایک مشورہ ضرور ہے کہ الزام تراشی نے نیشنل کرائم ایجنسی سے سبکی کروائی ہے۔ دوش اپنی پالیسی کو دیتے ہوئے، اسے سدھارنے کی کوشش کریں۔ صحافیوں سے نہ لڑیں۔ ڈالر 170 روپے اور پٹرول 127 روپے لیٹر ان کی وجہ سے نہیں۔