Get Alerts

افغانستان سے پاکستان آنے والے غیر ملکی فوجیوں کا قیام طویل ہونے کا امکان ہے: دفاعی تجزیہ کار

افغانستان سے پاکستان آنے والے غیر ملکی فوجیوں کا قیام طویل ہونے کا امکان ہے: دفاعی تجزیہ کار
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے واحد بین الاقوامی ایئرپورٹ پر بم دھماکوں کے کچھ دنوں کے بعد پاکستان کے ائیرپورٹس کی تصاویر سامنے آئیں جس میں امریکی فوجیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت نے اتحادی فوجیوں اور دیگر غیر ملکیوں کو اسلام آباد، لاہور اور کراچی پہنچنے اور قیام کی اجازت دی ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں ہوٹلوں کی بکنگ بھی رکوانے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس پر چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ آیا سلسلہ کچھ عرصے کے لیئے ہے یا یہ طویل طور پر چلتا رہے گا؟

دفاعی تجزیہ کار ایئر وائس مارشل (ر) شاہد لطیف کے خیال میں افغانستان سے آنے والے غیرملکی فوجیوں کا پاکستان میں قیام بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
ابھی تو یہ عارضی طور پر آئے ہیں لیکن بعد میں دباؤ بڑھ جاتا ہے اور حکومتوں کے پاس ان کا قیام بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تو حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ عارضی قیام ہے، لیکن میرے خیال میں یہ فوجی ادھر ہی رکیں گے۔ انڈیپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے بتایا کہ افغانستان سے آنے والے غیر ملکیوں کو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کے لیے پاکستان میں قیام کی اجازت ہوگی۔
دوسری طرف وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق کابل سے پاکستان آنے والے امریکی فوجیوں کو ٹرانزٹ ویزے فراہم کیے گئے ہیں، جو ایک مخصوص مدت کے لیے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے غیر ملکی فوجیوں اور دیگر اہلکاروں کے پاکستان میں طویل قیام کو مسترد کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور انہیں پورا کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملوں کے بعد غیرملکی اتحادیوں نے اپنے فوجیوں اور دیگر عملے کے انخلا کے عمل کو تیز کر دیا تھا، جو گذشتہ رات اختتام کو پہنچا دیا گیا۔
بین الاقوامی امور کے استاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں افغانستان سے آنے والے غیر ملکیوں کو پاکستان میں قیام کی اجازت دینے کے پیچھے انسانی ہمدردی کے علاوہ کوئی دوسرا  فیکٹر بھی ضرور موجود ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹرانزٹ کی سہولت تو چند ایک دن کے لیے بھی ہوسکتی تھی، جس کے ختم ہونے پر انہیں اگلی پرواز کے ذریعے بھیج دیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ وہ لمبے عرصے تک یہاں موجود رہے گے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دوسری بات بھی ضرور ہے۔
ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں امریکہ اور دوسرے اتحادیوں نے جن افغان باشندوں کو ساتھ لے کر جانا تھا انہیں پاکستان کو آؤٹ سورس کیا گیا ہے اور اسی لیے انہیں زمینی راستوں سے یہاں پہنچایا گیا۔ ‘
’دنیا کا کوئی دوسرا ملک ان افغانوں کو قبول نہیں کر رہا تھا جبکہ پاکستان نے حامی بھر لی اور یہ افغان باشندے اسی ڈیل کے تحت پاکستان پہنچے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے افغانستان سے پناہ گزینوں کی آمد کی امید کے باوجود کسی کے نہ آنے کے بیان کی روشنی میں ان افغانوں کی آمد کو دیکھیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ گذشتہ چند دنوں میں پاکستان پہنچنے والے افغان باشندے اگر پناہ گزین نہیں ہیں تو کون ہیں؟
ان کے خیال میں پاکستانی حکومت نے ضرور امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کے ساتھ اس سلسلے میں بات چیت کے بعد ہی ان افغان باشندوں کو قبول کیا ہے۔
تاہم وفاقی وزارت داخلہ کے سینئیرعہدیدار نے اس سلسلے میں کسی ڈیل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام غیر ملکیوں کو خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان میں عارضی قیام کی اجازت دی گئی ہے۔