جب سے کرونا وائرس کے عفریت نے دنیا کو جکڑا ہے سائنسدان مسلسل اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے آیا اور کہاں سے پھیلا۔ اب ایک نئے انکشاف کے تحت یہ واضح ہوا ہے کہ امریکی شہر بوسٹن میں ہونے والی ایک میڈیکل کانفرنس اس وائرس کے تین سے زائد براعظموں میں پھیلنے کا باعث بنی۔ تفصیلات کے مطابق 26 فروری کو بائیو ٹیک کمپنی بائیو جین کے عہدیداران امریکی شہر بوسٹن کے ایک ہوٹل میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
اس وقت کرونا وائرس امریکہ کے لئے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا جو چین تک ہی محدود تھا۔ لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وائرس اس کانفرنس میں موجود تھا جو ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا چلا گیا۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق وہ کانفرنس کرونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا باعث بننے والا موقع بن گیا جس نے امریکا، سنگاپور اورآسٹریلیا تک ممکنہ طورپرلاکھوں افراد کو متاثر کیا۔
جب میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو محققین نے متاثرہ افراد کے خلیات میں موجود وائرسز کے جینیاتی مواد کا تجزیہ کیا۔محققین نے میساچوسٹس ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کے نمونوں کو بھی دیکھا جس کی جانب سے بوسٹن میں بے گھر افراد کی پناہ گاہوں اور نرسنگ ہومز میں ٹیسٹنگ کی جارہی تھی۔
سائنسدانوں نے جنوری سے مئی کے دوران کووڈ 19 کے 772 مریضوں کے جینومز کا تجزیہ کیا۔ اس کے بعد محققین نے ان تمام جینومز کا موازنہ کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کی کہ ہر فرد میں یہ وائرس کہاں سے آیا۔
جب ایک وائرس اپنی نقول بنانا شروع کرتا ہے تو یہ ورثے میں جینیاتی مواد پیچھے چھوڑتا ہے جس کی مدد سے محققین وائرس کی منتقلی کے واقعے کو ٹریک کرسکتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ یہ کسی فنگرپرنٹ کی طرح ہے جس کی مد سے ہم وائرس کا تعاقب کرسکتے ہیں۔ بوسٹن میں کرونا وائرس کا پہلا مصدقہ کیس 29 جنوری کو چین کے شہر ووہان سے واپس آنے والے فرد میں سامنے آیا تھا، جس کا جینیاتی مواد ویسا تھا جو ووہان میں دریافت کیا گیا۔
مگر براڈ انسٹیٹوٹ کے محققین نے بعد میں بوسٹن میں سامنے آنے والے مریضوں میں اس کے جینیاتی فنگرپرنٹ کو دریافت نہیں کیا، کیونکہ پہلے کیس کو الگ تھلگ رکھ کر وائرس کو پھیلنے سے روک دیا گیا تھا۔
مگر فروری میں محققین نے بوسٹن میں 180 دیگر افراد میں دریافت کیا کہ انہوں نے دیگر تک اس وائرس کو پھیلایا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بوسٹن میں بیشتر کیسز کے جینیاتی فنگرپرنٹ یورپ کے ابتدائی کیسز سے مماثلت رکھتے تھے، کیونکہ کچھ افراد اس وائرس کو براہ راست یورپ سے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔
جب ماہرین نے گہرائی میں جاکر دیکھا کہ کن مقامات سے یہ وائرس شہر بھر میں پھیلا تو انہوں نے دریافت کیا کہ میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل میں کرونا وائرس کے مریضوں میں ایک جیسی اقسام نہیں پائی جاتیں، جس سے عندیہ ملا کہ یہ ہسپتال وائرس پھیلنے کا ذریعہ نہیں۔
مگر ایک نرسنگ ہوم میں ایسا ہوا جہاں مقیم 87 فیصد مریض اور 37 فیصد عملہ کووڈ 19 سے متاثر ہوا اور محققین نے ان مین وائرس کی 3 اقسام کو شناخت کیا، تاہم ان میں سے ایک قسم 90 فیصد کیسز کا باعث بنی۔
اس طرح کے بڑے پیمانے پر سامنے آنے والے کیسز کرونا وائرس کی خصوصیت ہے جس میں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے موزوں مقام پر ایک متاثرہ فرد درجنوں افراد کو بہت کم وقت میں متاثر کرسکتا ہے۔
محققین اس کانفرنس میں شریک افراد میں 28 وائرل جینوم سیکونسز تیار کرنے میں کامیاب رہے اور ہر ایک میں ایک ہی قسم سی 2416 ٹی کو دریافت کیا گیا۔
اس کانفرنس میں یورپ سے آنے والے افراد نے بھی شرکت کی تھی اور یہ ممکن ہے کہ وہاں سے آنے والا کوئی فرد اپنے ساتھ وائرس کی اس قسم کو لے آیا۔مگر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وائرس بوسٹن میں کانفرنس سے ایک ہفتے یا اس سے پہلے پہنچ چکا ہو اور کوئی اسے اپنے ساتھ کانفرنس میں لے گیا۔
اس کانفرنس میں شریک افراد نے گھنٹوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے قریب رہ کر گزارے، جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص تھا جبکہ فیس ماسکس کا استعمال بھی نہیں کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں وائرس تیزی سے پھیلا۔
کانفرنس میں شریک افراد کے اندر یہ وائرس ایک اور قسم جی 26233 ٹی میں تبدیل ہوا اور جن کے اندر یہ قسم بنی، جب اس نے دیگر افراد یں اسے منتقل کیا تو وہ دوہری اقسام والے وائرسز کا شکار ہوئے۔ محققین کے تخمینے کے مطابق بوسٹن میں 20 ہزار سے زائد افراد اس کانفرنس سے پھیلنے والے وائرس سے متاثر ہوئے
اور اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ اب تک لاکھوں افراد کے اس وائرس سے متاثر ہونے کا خد شہ ہو سکتا ہے۔