عدلیہ میں مداخلت سنگین مسئلہ ہے، اب یہ طے ہونا چاہیے کہ اس ملک میں آئین کی بالادستی اور رول آف لاء ہو گا یا کچھ اور ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر سپریم کورٹس، ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں بھی وردی والوں کو بٹھا دیں، یہ لوگ پردے کے پیچھے سے کیوں وار کرتے ہیں، انہیں کھل کر سامنے آ جانا چاہیے۔ یہ کہنا ہے سینیئر قانون دان اور رکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں انہوں نے کہا سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پر اعتراض ہوتا تھا کہ وہ اپنے من پسند ججز کا بنچ بناتے ہیں، موجودہ چیف جسٹس نے 7 رکنی بنچ بنا کر باقی ججز کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا؟ یہ اہم معاملہ ہے اور اس پر فل کورٹ بنچ بننا چاہیے تھا۔ اگر فل کورٹ بنچ بنتا تو پھر کسی کو اعتراض نہیں ہونا تھا۔ بدھ کو ہم سپریم کورٹ میں پیش ہو کر فل کورٹ بنانے کی استدعا کریں گے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
قانون دان احمد حسن شاہ کے مطابق یہ ایسا معاملہ ہے جس پر فل کورٹ ہی ہونا چاہیے تھا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت 13 جج صاحبان پر مشتمل ہے اور جب تک ججز کی خالی آسامیاں بھری نہیں جاتیں تب تک لارجر اپیلٹ بینچ دستیاب ہی نہیں ہو گا۔ یہ پیش رفت خوش آئند ہے کہ ججز کی فل کورٹ میٹنگ ہوئی، ایک بار نہیں بلکہ دو بار ہوئی۔ اس کا کریڈٹ بہرحال ان 13 جج صاحبان کو جاتا ہے۔ اس سے تاثر ابھرا ہے کہ پچھلے دور کے برعکس سپریم کورٹ بطور ادارہ اس ایشو پر بحث کر رہی ہے۔
میزبان رضا رومی تھے۔ پروگرام 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔