سٹیو جابز، ایپل کمپنی کا بانی جو کینسر سے ہار گیا

سٹیو جابز، ایپل کمپنی کا بانی جو کینسر سے ہار گیا
آج تقریباً ساری دنیا میں ہے آئی فون کو فخریہ پیش کش کے طور پر لیا جاتا ہے- یہ فون رکھنے والے جب سیلفی لیتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان کا منہ آئے نہ آئے فون کی تصویر ضرور آئے اور آدھا کٹا ہوا سیب ضرور آئے- آخر ہو کیوں نہ، آئی فون چیز ہی ایسی ہے۔ ایپل غالباً سب سے مہنگا اور سب سے جدید سمارٹ فون اور ٹیبز بنانے والی کمپنی ہے اور آج کی تاریخ تک اس کا کوئی ہم پلا نہیں ہے اور ان کی پروڈیکٹس آئی ٹی میں سب سے مہنگی ہیں اور ان کی ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ ہے- اور اس سب کا سہرا جاتا ہے اس کے بانی اسٹیو جابز کو جنہوں نے ایپل کو زیرو سے ہیرو بنا دیا ان پر قسمت کی دیوی کچھ یوں مہربان ہوئی کہ انھوں نے جس چیز پر بھی ہاتھ رکھ دیا وہ نہ صرف سونا بن گئی بلکہ سونا اگلنے لگ گئی-

لیکن اپنی صحت کے خوالے سے اسٹیو جابز اس قدر خوش قسمت ثابت نہ ہو سکے- 2003 میں ان کو کینسر کی تشخیص ہوئی اور 2004 میں انھوں نے اس چیز کو پبلک کر دیا کہ وہ لبلبے کے کینسر میں مبتلا ہو گئے ہیں جو اپنی نوعیت کا ایک بہت ہی نایاب کینسر تھا اور وہ تیزی سے ان کی جسم میں پھیل رہا تھا-

اصل میں ہوا کچھ یوں کہ انسانی سیل کے اندر موجود ڈی-این-اے کے دھاگے چھوٹے چھوٹے پروٹین کے گرد لپٹے ہوتے ہیں جن کو histone پروٹین کہتے ہیں- اور اس طرح کی ساختوں کو nucleosome کہا جاتا ہے- ہر انسانی خلیے کے اندر مکمل جسم کو بنانے کے لیے درکار معلومات موجود ہوتی ہے پر اس میں سے اظہار یا expression صرف متعلقہ جینز کا ہوتا ہے- جیسے آنکھ میں بھی اور بالوں میں بھی معدے کے اندر پیدا ہونے والی رطوبتوں کی معلومات ہو گی لیکن وہ اس کا اظہار یا expression نہیں ہو رہا ہوتا اور جسم نے اس کو off regulate کیا ہوتا ہے اس off regulation کے لیے سیل کے پاس مختلف نظام ہوتے ہیں- ان میں سے ایک نظام کو methylation کا نظام کہتے ہیں- اس میں یہ ہوتا ہے کہ methyl گروپ جا کر ان histone پروٹینز کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور وہ مزید مضبوطی سے ڈی این اے کے دھاگے کو اپنے گرد لپیٹ لیتی ہیں اور اس طرح وہ تمام جینز جو سیلز کے خوالے سے غیر متعلقہ ہوتے ہیں وہ express ہی نہیں ہو پاتے- تاہم کبھی کبھار اس سسٹم میں کوئی نہ کوئی خرابی ہو جاتی ہے جو ان جینز کو express کرنے کا باعث بنتے ہیں-



اسٹیو جابز کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا کے ان کے لبلبے کے خلیوں کے اندر موجود ایسا نظام جس کو DAXX کا نام دیا جاتا ہے وہ ناکارہ ہو گیا یا کسی خرابی کی وجہ سے غیر فعال ہو گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کے اب methyl گروپ تو موجود تھا پر اس کو histone پروٹین کے ساتھ منسلک کرنے والا نظام ناکارہ ہو چکا تھا اور نتیجے میں اب ان histone پروٹین نے اپنے گرد موجود ڈی این اے کو چھوڑ دیا اور اب ڈی این اے کے دھاگے کھل چکے تھے اور سیل کی مشینری ان کو کامیابی سے express کر رہی تھی اور اور اس کے نتیجہ میں لبلبے کے سیل جگر کے سیل میں تبدیل ہونا شروع ہو گے کیونکہ DAXX سسٹم کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے جو جینز histone پروٹین کی پکڑ سے آزاد ہوئے تھے وہ جگر کی جینز تھے- اور اب اسٹیو جابز کے لبلبے میں جگر کے سیل بن رہے تھے جو ایک ایبنارمل چیز تھی اور اس کے علاوہ یہ سیل ٹوٹ کر جسم کے دوسرے حصوں میں جا کر وہاں کینسر کے اسٹیشن بنا رہے تھے مطلب اب اسٹیو جابز کا کینسر metastatic ہو چکا تھا- اور یوں اربوں ڈالر کے کاروبار کا مالک ایک انتہائی ذہین اور قابل انسان دنیا کو ایک برینڈ دینے والا جو آج بھی فخر اور غرور کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہ اسٹیو جابز 2011 میں اس کینسر کے خلاف جنگ ہار گیا- اور 5 اکتوبر 2011 میں محض 56 سال کی عمر میں انتقال کر گیا-

اس سے بھی خیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسی سال 2011 میں امریکہ کی The Rockefeller University کے epigenetics پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے DAXX سسٹم کو صرف چند لاکھ ڈالر کے پروجیکٹ کی مدد سے دریافت کیا- اور بعد کی تحقیق کے نتیجے میں سائنسدان کافی خد تک مصنوعی طور پر اس DAXX سسٹم کو ایکٹو کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں- یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ سائنس پر سرمایہ کاری کس قدر اہم ہے کہ اگر یہ تحقیق دس پندرہ سال پہلے کر لی جاتی تو اسٹیو جابز جیسے نایاب انسان کے ساتھ کتنے ہی انسانوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی تھیں-
نیچے دی گئی تصویر میں ایک تصویر اس ریسرچ آرٹیکل کی ہے جس نے DAXX سسٹم اور لبلبے کے کینسر میں اس کے کردار کو پہلی دفعہ بیان کیا تھا- جو 2011 میں پہلی مرتبہ study کیا گیا تھا-

جبکہ کہ دوسری تصویر بھی اسی آرٹیکل سے ہے جو یہ دیکھا رہی ہے کہ بائیں جانب لبلبے کے اس خلیے کا جینوم پروفائل ہے جس کے اندر DAXX سسٹم ایکٹیو ہے اور نیلے رنگ میں ظاہر کیے جانے والے تمام جینز جگر کے ہیں پر وہ express نہیں ہو رہے پر دائیں جانب بھی لبلبے کے ایک سیل کا جینوم پروفائل ہے جس میں DAXX سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے اور سرخ رنگ میں نظر آنے والے تمام جنیز در حقیقت جگر کے جینز ہیں جو اب لبلبے میں express ہو رہے ہیں-
تیسری تصویر میں ڈی این اے کو histone پروٹینز کے گرد لپٹا دیکھا جا سکتا ہے-

عثمان اصغر کا تعلق گجرات سے ہے یہ اوشن یونیورسٹی آف چائینہ کے انسٹیٹیوٹ آف ایولوشن اینڈ میرین بائیو ڈئیورسٹی میں پی-ایچ-ڈی کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں-