پاکستان کا سٹیو جابز، مونس الٰہی، بھٹیوں کی فوج اور 'عجب کرپشن کی غضب کہانی'

پاکستان کا سٹیو جابز، مونس الٰہی، بھٹیوں کی فوج اور 'عجب کرپشن کی غضب کہانی'
ہم ہمیشہ مارک زکربرگ، سٹیو جابز کی امریکی کہانیاں سناتے ہیں۔ ایک شخص 2007 میں چپڑاسی بھرتی ہوتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں۔ جیسے اور بہت سے لوگوں کو وہ نوکریوں پر بھرتی کرواتے ہیں، ویسے ہی اس آدمی کی بھی کسی طریقے سے نوکری ہو جاتی ہے۔

لیکن یہ محمد نواز بھٹی سوچتا ہے کہ سرکاری نوکری کی تنخواہ میں تو کام نہیں چلنا۔ ساتھ کوئی اور کام بھی ہونا چاہیے۔ ابھی اس کی پہلی تنخواہ بھی نہیں آئی، وہ سوچتا ہے کہ میں کیوں نہ ایک مل لگا لوں؟ اپنی بھی ایک مل ہونی چاہیے۔ تنخواہ کتنی ہو جائے گی؟ 20 ہزار، 25 ہزار؟

اس کا ایک اور کزن تھا مظہر عباس۔ یہ ایک طالبِ علم تھا۔ یہ دونوں مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ آؤ ایک مل لگاتے ہیں۔ اسی دوران انہیں پتہ چلتا ہے کہ ایک اور مل لگانے کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ مل لگا رہے ہیں رحیم یار خان میں مخدوم برادران، یعنی مخدوم عمر شہریار کی مل اور یہ بھائی ہیں خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت کے۔ وہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں لیکن ان کو اس شوگر مل کے لئے NOC نہیں مل رہا۔ محمد نواز بھٹی صاحب انہیں کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ شراکت میں کاروبار کریں، NOC آپ کو مل جائے گا۔ اور وہ پھر جونہی شراکت دار بنے، تو انہوں نے کہا کہ اب آپ ذرا NOC کے لئے درخواست دیں۔ اور جب یہ کرتے ہیں تو پورے پنجاب کی بیوروکریسی حرکت میں آ جاتی ہے اور بنا وقت ضائع کیے، چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے، یہ NOC جاری ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصے بعد محمد نواز بھٹی تنگ آنے لگے کہ اب پیسہ بہت بن گیا ہے۔ یہ 2011 اور 2014 کے درمیان کچھ شیئرز آگے ٹرانسفر کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی نہیں پتہ چلتا  کہ ان کے پاس پیسہ آیا کدھر سے تھا اور نہ ہی آگے شیئر ٹرانسفر کی بات سمجھ آتی ہے۔ محمد نواز بھٹی آج بھی چپڑاسی ہے اور مظہر عباس اب محکمہ مال میں پٹواری ہو گیا ہے۔ وہ اپنی اوقات پہ واپس چلے گئے۔ ان کو ایک عہدہ دیا گیا تھا۔ وہ شیئرز لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ہوتے جا رہے ہیں اور بالآخر وہ سب شیئرز ایک آفشور کمپنی میں منتقل ہو رہے ہیں۔ وہ آفشور کمپنی مونس الٰہی کی ہے۔

محمد نواز بھٹی دراصل چوہدری پرویز الٰہی کے اس وقت جو پرنسپل سیکرٹری ہیں، ان کے ایک عزیز ہیں۔ محمد خان بھٹی گریڈ 7 کے کلرک بھرتی ہوئے تھے۔ انہیں چوہدری پرویز الٰہی نے ہی بھرتی کرایا تھا۔ ان کے بڑے بھائی احمد خان بھٹی چوہدری برادران کے ملازم تھے۔ انہوں نے ہی محمد نواز بھٹی عرف محمد خان بھٹی کو متعارف کروایا اور جہاں محمد خان بھٹی کلرک بھرتی ہوا تھا، احمد خان بھٹی بھی گریڈ 15 میں 1997 میں بھرتی ہوئے تھے جب چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے۔ اور اس شخص نے بھی بریک نہیں لگائی، 2008 تک یہ گریڈ 22 میں پہنچ چکا تھا۔ تاریخ میں کبھی اتنی ترقی کسی نے نہیں کی کہ ایک تو بندا صوبائی حکومت میں ملازم ہو، بلکہ صوبائی کی جگہ بھی اسمبلی کی ملازمت میں ہو، اور یہ 22ویں گریڈ تک جا پہنچے۔



اب ذرا پورے خاندان کو دیکھ لیں۔ مسلم لیگ ق کا اس وقت پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کا لیڈر ہے ساجد بھٹی اور وہ محمد خان بھٹی کا بھتیجا ہے۔ ساجد کا بھائی واجد بھٹی مونس الٰہی کے منی لانڈرنگ والے کیس میں ملزم ہے۔ واجھ بھٹی کہتا ہے کہ اصل میں یہ مل ہماری ہے۔ وہ مونس الٰہی کو بچا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے مرحوم والد نے یہ سرمایہ داری کی تھی میرے ان رشتہ داروں کے ذریعے اور یہ سب ان کا بے نامی کاروبار تھا۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو میرے سے بات کریں۔

اب FIA والے کہتے ہیں کہ آپ کے یا آپ کے والد صاحب کے پاس ایسے کون سے ذرائع تھے جن سے آپ نے یہ کاروبار کھڑا کر لیا۔ یہ اب تک ثابت نہیں ہو رہا۔

اس سارے عمل میں واجد بھٹی کے علاوہ ان کا ایک کزن ہے جس کو چوہدری پرویز الٰہی نے 2019 میں چپڑاسی بھرتی کرایا تھا لیکن وہ چپڑاسی بننے سے پہلے اس کے اکاؤنٹ کے ذریعے 34، 35 کروڑ روپیہ اس کے اکاؤنٹ سے ٹرانسفر ہوا ہے۔ ایک اور بھائی ہے ساجد بھٹی کا احمد خان بھٹی۔ اس کے اکاؤنٹ سے بھی کوئی 17، 18 کروڑ ٹرانسفر ہوا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ یہ پیسے یہاں سے جاتے تھے، آگے ایک اعوان فیملی آ جاتی ہے۔ ایک سہیل اعوان صاحب ہیں، وہ پہلے الائیڈ بینک میں تھے۔ 2007 میں انہوں نے وہاں سے استعفا دے دیا۔ اس کے بعد سے وہ چوہدری صاحبان کے ساتھ ہیں اور یہ بالخصوص چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی خاندان کے ساتھ ہیں۔ ابھی بھی گجرات میں جو عمران خان کا جلسہ ہوا تھا، اس میں خاصے نمایاں نظر آ رہے تھے۔ بھٹی خاندان پیسے ان کے اکاؤنٹ میں ڈالتا اور یہ آگے آفشور کمپنی میں ڈال دیتے۔

پھر اس آفشور کمپنی سے لندن میں ایک آفشور کمپنی میں پیسے جاتے تھے۔ جب ہم پنڈورا پیپرز پر کام کر رہے تھے تو اس میں بھی مونس الٰہی کا بار بار نام آتا تھا۔ ایک خاتون تھیں، ماہ رخ جہانگیر۔ یہ خاتون کاغذات میں ایک بیرسٹر کے طور پر موجود تھیں۔ جو پیسے آفشور کمپنی میں جاتے تھے وہ آگے ماہ رخ جہانگیر کو جاتے تھے اور پھر وہ مونس الٰہی کی اہلیہ تحریم کو ٹرانسفر کرتی تھیں۔

بہت عرصہ تک ہم ڈھونڈتے رہے کہ آخر یہ ماہ رخ جہانگیر کون ہے۔ اب FIA نے جو چالان جمع کروایا ہے اس سے جا کر پتہ چلا ہے کہ یہ مونس الٰہی کی ساس ہیں۔ لہٰذا انہوں نے شیئر بیٹی کو دیے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ماں نے بیٹی کو شیئر گفٹ کر دیے۔

اس کے علاوہ دو اور کمپنیز ہیں۔ ایک کے مالک مونس الٰہی ہیں۔ دوسری کے مالک ان کے چھوٹے بھائی کی اہلیہ ہیں۔

اس کے علاوہ ایک صاحب ہیں منیر حسین جو رحیم یار خان والی مل کے چیف فنانشل آفیسر ہیں۔ ان پیسوں اور شیئرز کے ٹرانسفر میں منیر حسین بھی ملوث ہے۔ مظہر عباس نے کچھ شیئر منیر حسین اور اس کی ایلیہ کو بھی ٹرانسفر کیے۔ رحیم یار خان کی جس شوگر مل کے مالک ہم خسرو بختیار خاندان کو سمجھتے ہیں اس کے 50 یا 51 فیصد کے مالک مونس الٰہی ہیں۔ منیر حسین FIA کی تحقیقات کے مطابق مونس کے بے نامی دار ہیں۔

یہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک کلاسک کیس ہے۔ یہ اعترافی بیان بھی نہیں ہے۔ یہ بینکوں کا ریکارڈ ہے جس میں سب کچھ لکھا ہوا ہے کہ کون سے پیسے کس کے کہاں جا رہے ہیں۔

یہ گفتگو سینیئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے اعزاز سید کو اپنے یوٹیوب چینل Talk Shock پر سنائی جسے اعزاز سید نے 'عجب کرپشن کی غضب کہانی' قرار دیا۔