فوجی عدالتوں میں ٹرائل، فُل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا ایک بار پھر مسترد

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریماکس دیےکہ اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے۔ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پرچھوڑتے ہیں۔ ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔

فوجی عدالتوں میں ٹرائل، فُل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا ایک بار پھر مسترد

سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس  میں فُل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کر دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ 

سماعت کے آغاز پر عدالت نے فل کورٹ کی درخواست کرنے والے وکیل فیصل صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پراٹارنی جنرل نے کہا گزشتہ روز فیصل صدیقی کی درخواست سنی گئی۔ جہاں تک اس کیس کا تعلق ہے تمام تریقین دہانیاں کرائی جا چکی ہیں۔ زیرحراست تمام افراد کو سہولیات دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمرقید نہ ہو۔ تمام 102 افراد کے وقار اور احترام کی ضمانت دی جاتی ہے۔ کسی کے ساتھ برا برتاؤ نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیر حراست افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے اور وکیل کرنے کی اجازت ہے۔ زیرحراست افراد کو فیئرٹرائل کا حق دیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ ستمبر تک دستیاب نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریماکس دیےکہ اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے۔ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پرچھوڑتے ہیں۔ ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔

گزشتہ روز  اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل  کیخلاف کیس میں زیرحراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہاکہ 102افراد زیرحراست ہیں۔تحریری جواب میں پورا چارٹ ہے۔ کتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ 

اٹارنی جنرل نے  کہا کہ زیرحراست 7ملزم جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں۔ 4ملزموں نے آرمی انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کیا۔ 28ملزموں نے جناح ہاؤس لاہور میں حملہ کیا۔ 5ملزم ملتان، 10ملزم گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں۔ 5ملزم پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں،14ملزم چکدرہ حملے میں ملوث ہیں۔ 7ملزموں نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا۔  3ملزم ایبٹ آباد اور 10ملزم بنوں گریژن حملے میں ملوث ہیں۔ زیر حراست ملزموں کی گرفتاری کیمرے اور دیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی۔ فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے والے زیرحراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کرا دی۔

اس سے قبل 18 جولائی کو   سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس  میں فُل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی استدعا مسترد کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں۔ فل کورٹ تشکیل دینا نا ممکن ہے۔ یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا۔ تعطیلات کے دوران ججز دستیاب نہیں ہوتے۔