جب بھی کسی قوم پر برے حالات آتے ہیں اور وہ کسی اور کے زیر تسلط آجاتی ہے تو اس قوم میں چند ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو آزادی کی راہ میں مادر وطن کے خاطر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کر کے قوم و ملت کی آزادی کا سبب بنتے ہیں۔
صنعتی انقلاب کے بعد یورپی ممالک نے دوسرے ممالک کو اپنی کالونیاں بنانے کیلئے ایشیا اور افریقہ کے ممالک کا رخ کیا اور کئی ممالک کو اپنی کالونی بنایا۔ برطانیہ نے اس دوران ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور افغانستان کے کچھ علاقے گندمک اور کچھ علاقے ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے ان سے الگ کئے۔ یہ وہ دور تھا جب پشتون افغان وطن پر ہر طرف ظلم و جبر کی حکمرانی تھی، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار جاری تھی اور سیاسی، معاشی، غرض ہر طرح کی آزادی سلب کی جا چکی تھی۔ ان حالات میں 7 جولائی 1907 کو عنایت اللہ کاریز گلستان میں نور محمد خان کے گھر عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش ہوئی۔ یہ ایک ایسا خاندان تھا جو پچھلے 5 پشتوں سے وطن کی آزادی اور دفاع کے جنگوں میں پیش پیش رہا۔ یہ اس برخوردا خان کا خاندان تھا جو احمد شاہ ابدالی کے 3 خاص جرنیلوں میں سے ایک تھے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی زندگی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ جماعت ہشتم کے طالبعلم تھے اور انہوں نے تحریک خلافت کا حصہ بنتے ہوئے طلبہ کا جلوس نکالا تھا۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی مزاحمتی سیاست کرنے والے عبدالصمد اچکزئی کو بار بار قید و بند کی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔
اس سلسلے میں انہیں پہلی دفعہ 1929 میں گرفتار کیا گیا۔ یہاں سے قید و بند کی تکلیفوں کا ایک نا ختم ہونے واالا سلسلہ شروع ہوا جس میں کبھی جیل جانا پڑتا تو کبھی استقلال اخبار چلانے کیلئے اپنی زمین گروی رکھنی پڑتی۔ لیکن، مجال ہے کہ یہ خان شہید کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹا پاتے اور ہٹاتے بھی کیسے؟ وہ کسی ذاتی مقصد کیلئے نہیں بلکہ قومی آزادی کیلئے لڑ رہے تھے اور آزادی کی راہ میں یہ سب مشکلات آتی رہتی ہیں۔
فرانسیسی فلسفی البرٹ کیمس لکھتے ہے کہ "ناانصافی پر مبنی نظام کو گرانا ہے تو اتنی مزاحمت کرنی پڑے گی کہ تمہارا وجود ہی بغاوت کے برابر ہو۔"
خان شہید ایک چلتی پھرتی بغاوت تھے، لیکن بغاوت کس کے خلاف؟ وہ باغی تھے انگریز راج سے، وہ باغی تھے اس قبائلی نظام سے جو نسل در نسل غریب پشتونوں کا خون چوس رہا تھا، وہ باغی تھے ان رسم و رواج سے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے تھے، وہ باغی تھے رجعت پسندی سے، وہ باغی تھے پدر شاہی نظام سے۔ اب ایک نو آباد سماج میں اتنے بڑی گناہوں کے بدلے سزا تو کاٹنا پڑتی ہے۔
خان شہید 1929 میں پہلی دفعہ 28 دن کیلئے جیل گئے۔ 1930 میں دوسری مرتبہ گئے جہاں انہیں دو سال سزا ہوئی، 1933 میں 3 سال کیلئے جیل گئے اور 1943 میں 10 ماہ کیلئے انہیں جیل ہوئی۔ صرف جیل ہی نہیں مختلف طریقوں سے خان شہید کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا، جس کی واضح مثال 1939 میں انجمن وطن کے زیر اہتمام اوستہ محمد کا جلسہ ہے۔ اس جلسے پر انگریزوں نے اپنے پروردہ سرداروں جعفر جمالی اور رستم جمالی کے ذریعے حملہ کروایا، جس میں خان شہید اور باچا خان دونوں شرکت کر رہے تھے اور دونوں زخمی ہوئے۔
1947 میں اسی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز چلے گئے اور مملکت خداداد پاکستان کے بنتے ہی آزادی کے اس عظیم مجاہد کو اپنے وطن پر ملی تشخص، ملی وحدت، اپنے وسائل پر اختیار، ملک میں جمہوریت اور قوموں کے درمیان برابری کی جدوجہد شروع کرنے کی پاداش میں سزا ملی۔ انہیں 1948 سے 1954 تک جیل میں ڈالا گیا۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو 1958 میں سب سے پہلے خان شہید کو قید کیا اور 14 سال سزا سنائی۔ یوں خان شہید ایوبی مارشل لا کا پہلا اور آخری قیدی بنا۔ 1968 میں انہیں ایک سال کیلئے پھر قید کیا گیا۔ 1969سے 1973 تک وہ آزاد رہے اور بلاآخر 2 دسمبر 1973 کو انہیں ایک بم حملے میں شہید کیا گیا۔
وطن پر مر مٹنے والے ان عظیم انقلابیوں کیلئے ساحر لدھیانوی لکھتے ہے کہ
نہ منہ چھپا کے جیے ہم نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے
خان شہید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کے یہ جدوجہد ایک سیاسی پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے 30 مئی 1938 کو "انجمن وطن" بنائی، جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اس وقت کے اخباری بیانات کے مطابق 1939 میں انجمن وطن کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقد تقریب میں 10000 کے قریب افراد شریک تھے۔ تقسیم ہند تک خان شہید اسی پلیٹ فارم سے شرکت کرتے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد خان شہید نے 1954 کو ورور پشتون بنائی جو کہ 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی میں تحلیل ہوئی لیکن ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب نیپ نے اپنے منشور کی خلاف ورزی کی اور لسانی بنیادوں پر صوبے بنانے کے بجائے سابقہ برٹش بلوچستان کو بلوچستان نامی صوبے کا حصہ بنایا تو خان شہید نے اپنا راستہ الگ کرتے ہوئے پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
خان شہید سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اعلی پائے کے ادیب اور صحافی بھی تھے۔ انہوں نے روایتی سیاست کو سیاسی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے پریس ایکٹ 1938 سے پہلے کراچی اور لاہور کے اخبارات میں اپنی تحریروں کے ذریعے عوامی مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی اور پریس ایکٹ کے بعد 20 نومبر 1938 کو استقلال اخبار شائع کیا۔ وہ چاہتے تو اس پریس کے ذریعے انگریز سرکار سے ہر قسم کے مراعات حاصل کرسکتے تھے لیکن خان شہید نے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایک پروفیشنل صحافی کی طرح زرد صحافت کو ٹھکرایا جس کی وجہ سے انہیں شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ خان شہید کو یہ پریس چلانے کیلئے اپنی زمین گروی رکھوانی پڑی۔ آخرکار 1941 میں استقلال اخبار پر انگریز سرکار نے پابندی لگائی۔
خان شہید نے ایف اے اور بی اے کے امتحانات جیل سے دیے اور جیل میں ہی کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نےفیوچر آف فریڈوم نامی کتاب کا ترجمہ کیا، مولانا شبلی نعمانی کے سیرت نبوی کا پشتو میں ترجمہ کیا اور زما ژوند او ژوندون کے نام سے اپنی آٹو بایوگرافی لکھی جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے پشتو زبان کو ایک ایسا رسم الخط دیا جو کہ دوسری زبانوں کے حروف سے بلکل پاک تھا۔
ایک قبائلی معاشرے میں پیدا ہونے کے باوجود خان شہید ترقی پسند خیالات کے مالک تھے۔ وہ سیاسی تقاریب میں اپنی بیٹی کو ساتھ لے جا کر اس فرسودہ نظام کو چیلنج کرتے تھے جو پدر شاہی کی بنیاد پر قائم تھا۔ انہوں نے 1970 کے عام انتخابات میں عورتوں کے ووٹوں کا اندراج اور استعمال کیلئے باقاعدہ مہم چلائی۔
قبائلی نظام اور انگریز کے مقرر کردہ قبائلی عمائدین کے خان شہید شدید مخالف تھے۔ وہ انہیں بھی پشتونوں کے تباہی کے ذمہ دار سمجھتے تھے کیونکہ یہی لوگ بیوروکریسی کے کہنے پر اپنی قوم کے خلاف غیروں کے آلہ کار بنتے تھے۔ ان کے متعلق خان شہید اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہے کہ "کوئی بھی شخص قوم کو بیچ کر اپنے لئے عزت نہیں کما سکتا ہاں البتہ اپنی قیمت لگا کر بک سکتا ہے۔"
خان شہید تقریباً ہر معاملے میں ترقی پسند نظریات کے مالک تھے اور نا صرف یہ کہ ان نظریات کا علم رکھتے تھے بلکہ انہیں اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ بھی کرچکے تھے۔ قومی، معاشی اور معاشرتی آزادی کے یہ علمبردار اگر دنیا کی کسی اور قوم میں پیدا ہوتے تو اب تک پوری دنیا کیلئے مزاحمت کی علامت بن چکے ہوتے۔ حق بات یہی ہے کہ خان شہید کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور نا ہی ان کا حق ادا کیا گیا ہے۔ ریاستی نصاب سے تو کوئی گلہ نہیں کہ جو ہزاروں کلو میٹر دور سے آنے والے حملہ آوروں کو قومی ہیروز قرار دیتا ہے لیکن خان شہید جیسے اس دھرتی کے سچے فرزندوں کی قربانیاں چھپائے رکھتا ہے۔ گلہ تو اپنوں سے ہے کہ کیوں اس دھرتی کے سچے فرزند کا حق ادا نہیں کیا گیا؟
کیا اس شخص کا یہ حق نہیں کہ ان کے خدمات کے اعتراف میں سہ روزہ عالمی کانفرنسز منعقد کیے جائیں؟ کیا خان شہید کا یہ حق نہیں کہ ان خدمات کے اعتراف میں ریسرچ آرٹیکلز شائع کئے جائیں؟ اور یہ سب صرف اس لئے نہیں کہ ان کے خدمات کا اعتراف کیا جائے بلکہ اس لئے بھی کہ آنی والی نسلیں اپنے ہیروز کو جان سکیں اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی قوم اور وطن کے فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکیں۔
اوس قافلې دي بې خطره درومي
موږ يې په لار کې مشالونه ايښي