مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گاؤں کے ایک حجرے میں چھ ستمبر، 23 مارچ اور 14 اگست کو ٹیلی وژن کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ چونکہ گھر میں ٹی وی نہیں تھا تو میں بھی اس دن ملٹری مارچ اور بعد میں محمد علی شہکی اور عالمگیر کے ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ جیسے ملی نغموں کی مدد سے خون کو گرمانے کے بعد پروگرامز سے یہی تاثر لیتا تھا کہ ہم دنیا کی بہترین اور ناقابلِ تسخیر قوم ہیں۔ مجھ سمیت گاؤں والے نور جہاں کی آواز میں ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ سے لے کر ’’ہے جذبہ جنوں‘‘ تک کو انجوائے کرتے اور ایمان کی حد تک یقین تھا کہ ہم دنیا کی اعلیٰ ترین قوم اور ہماری فوج نمبر ون ہے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تو کمزور ایمان اور بغیر ایمان کے پڑوسی ہیں جن کو ہم کسی بھی وقت زیر کر سکتے ہیں۔
مجھے اپنے علاقے کا وہ ٹرک بھی یاد ہے جس کے پیچھے والے حصے پر جنرل ضیا کی تصویر تھی اور جب بھی ہم اس کو دیکھتے تو فوجی جوان کی طرح راستے میں کھڑے ہو کر اس ٹرک والی تصویر کو عزت اور بہادری کا سپوت تصور کر کے سلیوٹ کرتے۔ پھر ایک وقت میں الفا، براؤو چارلی اور عبدالرؤف خالد مرحوم کے ڈراموں نے تو یہ فیصلہ بھی کیا کہ حالات جیسے بھی ہوں مگر فوجی کپتان بننا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے مطابق تو ویسے بھی ساری جنگیں ہم جیت ہی چکے ہیں۔ امام مسجد جمعہ کے روز یہی کہتے کہ کافر روس کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اور امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کو ہم تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے جب بھی ذکر آتا تو یہی سنتے کہ وہاں کے لوگ غدار ہیں اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ہیں مگر کسی نے نہیں بتایا کہ بلوچ قوم کے ساتھ دہائیوں سے سوتیلے بچوں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔
اُس عمر میں آئینی حقوق وغیرہ کا تو پتہ نہیں تھا۔ اسی طرح قوم پرست قیادت کو میں دشمنان اسلام و پاکستان تصور کرنے لگا۔ مجھے پرائمری اور ہائی سکول میں خود مختاری کا لفظ علیحدگی اور آزادی کے تناظرمیں سمجھایا گیا تھا اور اساتذہ نے یہی سمجھایا تھا کہ بے شک پانی خیبر پختونخوا سے نکلتا ہے مگر اس پر پورے ملک کے لوگوں کا حق ہے مگر کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وفاق بجلی کی مد میں صوبے کا کتنا مقروض ہے اور دو روپے میں فی بجلی یونٹ یہی پشتون بیس روپے میں واپس خریدتے ہیں۔ بہرحال میں اپنا حق مانگنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس کے ساتھ دوران کلاس جنگوں کا تذکرہ جذباتی انداز میں سنتے کہ 48 اور 65 کی جنگوں سمیت کارگل میں ہم نے دشمن کو سبق سکھایا ہے اور دنیا کو بھی ہماری طاقت کا درست اندازہ ہوا ہے۔ اس درمیان کمال مہارت سے مطالعہ پاکستان لکھنے والے سقوط ڈھاکہ بھلوانے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے، قوم کا اجتماعی حافظہ برباد کرنے والوں نے اپنے تیئں تو کوشش بھرپور کی ہے لیکن اس طرح تھوڑی ہوتا ہے کہ شترمرغ کی طرح سر کو ریت میں دبانے سے طوفان تھم جائے۔ تاریخ مسخ کرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ سوالات اٹھانے والوں کے لئے ایک نئے اور واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔
خیالات، واقعات، تاریخ اور کتابوں کا تصادم اس وقت شروع ہوا جب یونیورسٹی کے دنوں میں مختلف قسم کی کہانیاں سننے کو ملیں۔ جیسے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو آئی ایم ایف، گلف ممالک سمیت چین کے قرضوں اور امریکہ کی امداد پر چلنے والی قوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہمیں یہ تاریخ پڑھائی ہی نہیں گئی کہ کس طرح بنگالیوں کے ساتھ زیادتیاں روا رکھی گئیں اور نتیجتاً ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ اس کے بعد عائشہ صدیقہ کی کتاب اور آرٹیکلز نے مجھے اس ملک کے اصل طاقت کے مراکز کا بہتر ادراک دیا۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی پشتون علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف ملٹری آپریشنز شروع ہو گئے۔ سوات، باجوڑ، مومند سمیت دوسرے پشتون علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے ہی ملک میں نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پشتونوں کے علاقوں کو دہشت گردوں کا گڑھ بنایا گیا۔ پہلے طالبان اور ملٹری آپریشنز کے بعد مقامی لوگوں کی ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش شروع ہو گئی جو آج بھی جاری ہے، اگرچہ اس کی شدت میں بہت کمی آ گئی ہے مگر پھر بھی مومند، خیسوراور خڑقمر جیسے بدنما واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
جب کراچی میں راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کیا تو وہ کسی حد تک پشتونوں کے صبر کا آخری درجہ تھا۔ تبھی پشتون تخفظ موومنٹ وجود میں آ گئی۔ منظور پشتین اور اس کے دوستوں نے جان ہتھیلی میں رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا شروع کر دیا۔ اسلام آباد میں فروری 2018 میں دس روزہ دھرنا ہوا جس کو پاکستانی میڈیا نے کوریج نہیں دی بلکہ پشتون نوجوانوں کو ہندوستان اور افغانستان کے ایجنٹس کے طورپر پیش کیا مگر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کے بہترین استعمال نے پاکستانی میڈیا کی کمی پوری کر دی۔ پی ٹی ایم میں پشتون تعلیم یافتہ کلاس نمائندگی کر رہی ہے جو بات دلیل کی بنیاد پر کرتی ہے۔ ریاست پاکستان نے چند مرتبہ مذاکرات کیے اور چند کمزور کمیٹیاں بھی بنائیں لیکن دور رس نتائج سامنے نہیں آئے۔ ایک غیر جانبدار تعلیم یافتہ پشتون نوجوان کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ یہیں سے سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا اور پھر میرے لئے میڈم نور جہاں، محمد علی شہکی اور عالمگیر کے ملی ترانوں میں کوئی اثر نہیں رہا۔ مجھے ہر پشتون مظلوم لگنے لگا۔ ہر ایک کے پاس لکھنے کو داستانیں ہیں کہ کس طرح ان کی عزت نفس کو باربار مجروح کیا گیا، جب ان کو چیک پوسٹس پر لوگوں کے سامنے مرغا بنایا گیا اور جب اسی طرح کا واقعہ میرے ساتھ پشاور ائر پورٹ کے ساتھ والی چیک پوسٹ پر پیش آیا تو مجھے احساس ہو گیا کہ اس دیس میں اصل حکمران کون اور ہم جیسے تھرڈ کلاس شہری کیا چیز ہیں۔
نفسیاتی طور پر میں مضبوط وفاق اور ایک پاکستان قوم کے مؤقف کا حامی تھا اور یہ پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں مجھے ہندوستانی اور افغانستان فنڈڈ لگ رہی تھیں مگر باچاخان، ولی خان اور جنرل شاہد عزیز کی کتابیں پڑھنے کے بعد سچ اور جھوٹ کا صحیح اندازہ ہو گیا۔ اور جب جنرل مشرف نے امریکی ڈرون حملوں کی اجازت دی اور بعد میں پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ بھی ہوا جس میں کئی جانیں بھی گئیں تو اس دن مجھے درست اندازہ ہوا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دل دل پاکستان کی جگہ آہستہ آہستہ ’’پختون تہ جوندون غواڑو‘‘ اور ’’دا سنگہ آزادی دہ‘‘ جیسے انقلابی قوم پرست ترانوں نے لے لی۔ صاحب شاہ صابر کی ایک نظم ’’دا ونی بوٹی واورے او گلونہ می وطن دے‘‘ بھی حال ہی میں پشتون گلوکاروں نے آئی ایس پی آر سپانسرڈ گائی ہے۔ مزے کی بات تو یہی ہے کہ یہ وہی شاعر ہے جس کو ریاست نے ملاکنڈ سازش کیس میں سنگین غداری میں نامزد بھی کیا تھا۔ شکر ہے کہ مرنے کے بعد تو صاحب شاہ صابر کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔
دا ونے بوٹی واورے او گلونہ مے وطن دے
دا غرونہ مے ہڈوکی دی دا خاورہ مے بدن دے
ترجمہ: یہ درخت، برف، اور پھول میرا وطن ہے
یہ خوبصورت پہاڑ میرے ہڈیاں اور مٹی بھی میرا وطن ہے
یہ کہانی کسی ایک بندے کی نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو گراس روٹس لیول پر معمولات کو جمہوری اداروں کے سپرد کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو آئین کا تابع بنانا ہوگا۔ میری 2200 کلومیٹر لمبی سرحد محفوظ نہیں ہے، لہٰذا میری دلچسپی واہگہ بارڈر کی پریڈ میں بالکل بھی نہیں رہی۔ کرتارپور پر تو کافی خوش ہوں مگر طورخم اور چمن بارڈرز پر جب سکیورٹی اہلکار پشتونوں پر ڈنڈے برساتا ہے تو دل سے آہ بھی نکلتی ہے۔ غدار منظور پشتین، عالم زیب محسود، عالمگیر، ملا بہرام اور درجن اور جوان پشتون سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ریاست کو چلا کون رہا ہے؟ مراد سعید اور عبدالقادر پٹیل؟ نہیں تو۔
مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔