پشتون تحفظ تحریک پر غداری کے الزامات

پشتون تحفظ تحریک پر غداری کے الزامات

از ولی خان مومند


پشتون تحفظ موومنٹ پرکئی اعتراضات کئے جا رہے ہیں مگر کسی کے پاس ان اعتراضات کے جوابات نہیں۔ سوشل میڈیا پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتون کو جہاں نصف سے زائد پختون سپورٹ کر رہے ہیں وہیں ان کو مخصوص گروپ کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ پی ٹی ایم ایک اینٹی سٹیٹ تحریک ہے۔ پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتون پر غداری کے الزامات بھی لگانے کی پرزور کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ اس تحریک کو دیگر ممالک، خصوصاً افغانستان کی حمایت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ تاثر بھی دیا گیا کہ منظور پشتون کو بعض این جی اوز اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں لیکن یہ سب باتیں ہوا میں تیر مارنے کی مانند ہیں کیونکہ کسی کے پاس کوئی جواز اور ثبوت نہیں۔



منظور پشتیں پاکستان کے خلاف نہیں


اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے کامیاب دھرنے کے بعد کوئٹہ، کراچی، ڈی آئی خان اور اب پشاور میں پچاس ہزار کے قریب لوگوں کو جمع کرنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس ملک میں ایک طبقہ اپنی لئے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر منظور پشتون اس ملک کے خلاف ہے تو آیا انہوں نے کبھی بغاوت کی بات کی ہے؟ انہوں نے تو اس بات کا کئی بار اپنے جلسوں میں ذکر کیا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں قبائیلیوں نے دی ہیں۔ مگر پھر بھی ہم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے رہے ہیں۔ بقول منظور پشتون کے، اگر میں نے قوم کے ساتھ غداری کی تو مجھے سرعام آگ لگا دی جائے اور یہ کہ ہم امن کی راہ پر چل کر تنازعات کا حل چاہتے ہیں۔



پشتون تحفّظ موومنٹ کے اغراض و مقاصد


یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پشتون تحفظ کے مطالبات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں ایک بھی بات ایسی نہیں جو آئین پاکستان یا انسانیت کے خلاف ہو۔ محسود قبائل کے نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جس میں نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل کیس سامنے آنے کے بعد یہ تحریک موجودہ شکل میں وجود میں آئی۔ پی ٹی ایم کے مطالبات میں راؤ انوار کو سرعام پھانسی دینا، قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ، ضرورت سے زائد فوجی چیک پوسٹیں ختم کرنا اور لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کر نا شامل ہیں۔ ان مطالبات کے بارے میں فوجی ذرائع  کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے اور چیک پوسٹوں میں بھی خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔ لیکن دوسری جانب پی ٹی ایم کے سرکردہ اراکین ان مطالبات کا بار بار ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے مطالبات پر کسی نے غور نہیں کیا۔



لاپتہ افراد ایک سنگین مسئلہ


پشاور جلسے میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین کا تصویروں سمیت شرکت کرنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ واقعی انصاف کے مستحق ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ ریاست کے خلاف نہیں بلکہ ریاست میں رہنے کا حق مانگتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ریاست میں پی ٹی ایم کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں میڈیا کوریج پر پابندی اولین ہے۔



پشتون تحفّظ موومنٹ کو درپیش خطرات


پشتون تحفظ موومنٹ کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں بلکہ پہلے پہل عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اس تحریک کو بہت تقویت ملی لیکن پھر انہوں نے بھی منہ موڑ لیا اور اب یہ تحریک خود آگے بڑھ رہی ہے۔ ایسے وقت میں پشتون تحفظ موومنٹ کو حد سے زیادہ اختیاط کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی غلطی خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو، اس تحریک کو کافی متاثر کر سکتی ہے۔ اس لئے پی ٹی ایم نے فیصلہ بھی کیا ہے کہ کسی کے خلاف بھی جلسے میں نعرہ بازی نہیں ہوگی اور اس وقت تک ہماری تحریک جاری رہے گی جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے۔



مستقبل کا لائحہ عمل


پشتون تحفظ موومنٹ نے سوات اور لاہور میں بھی جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی ایم اپنے مطالبات منوانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔