سندھ میں آباد پشتون اور حالیہ سندھی پشتون تناؤ: ''پٹھان کا قرضہ'' اور ماضی وحال

سندھ میں آباد پشتون اور حالیہ سندھی پشتون تناؤ: ''پٹھان کا قرضہ'' اور ماضی وحال
اتنی عورتوں کے نام سندھ کے گاؤں گوٹھوں میں ان کے مردوں کو بھی یاد نہیں جتنے ان کی عورتوں کے نام پٹھان پھیری والوں کو یاد ہوتے ہیں۔ یہ پٹھان پھیری والے سردیوں میں سال بسال سندھ کے کئی گوٹھوں میں کپڑے بیچنے کو دیکھے جاتے جن سے کپڑوں کی خریداری اپنے گھروں کے دروازوں دیوڑھیوں پر عورتیں کرتی۔ پٹھان یا پشتون پھیری والا فروخت کیے ہوئے کپڑے کی رقم اس وقت تو وصول نہیں کرتا، بس خریدار عورت کا نام اپنی کاپی یا حساب کی کتاب میں لکھ لیتا۔ پھر رقم کی وصولی اگلے سال اپنی آمد پر۔ یہ سب ادھار پر چلتا کہ سندھی میں کہتے ہیں 'ادھار کی ماں کبھی نہیں مرتی'۔ وہ پھیری والا پٹھان شستہ سندھی یا پھر پشتو لہجے اور تلفظ میں گلابی سندھی بھی بولتا۔ اب بھی بولتے ہیں۔

سندھی میں ہی آج تک ذوالفقار علی بھٹو اور پھر بینظیر بھٹو کو سندھیوں کے ہر دفعہ ووٹ دینے کو بھٹو کا قرض کہتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ 'بھٹو کا قرض ہے کہ پٹھان کا قرض اترتا ہی نہیں۔' جب جام صادق علی سندھ کا وزیراعلیٰ تھا تو اس سے ایک پٹھان بزرگ اس کے کراچی گزری والے گھر پر ملنے آیا اور جام نے اسے ایک درخواست پر زمین الاٹ کی۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون تھا تو جام صادق علی نے پوچھنے والے کو بتایا کہ یہ ابا کے زمانے میں ہمارے گاؤں میں سردیوں میں کوٹ بیچنے آیا کرتا تھا۔

سندھ کے شہر ہوں کہ گاؤں وہاں پشتون تو کئی زمانوں سے آتے جاتے اور آکر بستے رہے ہیں۔ افغانستان میں امان اللہ خان کی حکومت سے بھی بہت بہت پہلے۔

نیز سندھیوں کے افغانستان کے طرف سفر اور نقل وطنیاں بھی پرانی داستانیں ہیں۔ شکارپور وحیدر آباد کے سندھی تاجروں، ہنڈی والوں، سے لے کر ریشمی رومال اور خلافت تحاریک کے مہاجرین تک۔ بیرسٹر جان محمد جونیجو نے تو افغانستان ترک وطن کرنے والے مہاجرین کے لئے لاڑکانہ سے پشاور میل اپنی جیب سے بک کی جبکہ ریشمی رومال تحریک کے بڑے تاریخی کردار حیدر آباد سندھ کے شیخ عبدالرحیم جو افغانستان ہجرت کرگئے کا آج تک پتہ نہیں۔ اور عبیداللہ سندھی سمیت ان کے کئی ساتھی جو افغانستان ہجرت کرگئے۔

اگر دُکھی سندھو وادی کی تاریخ وماضی کو دیکھا جائے تو ایران اور افغانستان سے نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی، مدد خان پٹھان، شاہ شجاع، شاہ بیگ ارغون، حسن بیگ ارغون اور عیسیٰ خان تک سندھ کے صحرائوں میں ان کے گھوڑے دوڑتے اور سندھ تاراج کرتے نظر آتے ہیں۔ اور کلہوڑو اور تالپور حکمرانوں کو یا تو قندھار اور دہلی کو خراج ادا کرتے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ نے اپنے بیٹے اور بھائی افغان حکمرانوں کے پاس رہن رکھ کر سندھ پر حکومت کی۔ سندھ میں دہائی دیتے وقت یہ بھی کہتے ہیں 'گھوڑا گھوڑا'۔

روایت یہ ہے کہ مدد خان پٹھان کے گھوڑوں کی یلغار دیکھ کر دور سے کچھ نے دہائی دی تھی 'گھوڑا ڑے گھوڑا' کہ گھوڑے آ گئے۔ سندھ کا سب سے بڑا سورما دولہہ دریا خان ہے جس نے شاہ شجاع کے چودہ سالہ بھتیجوں کو سبّی کے پاس قتل کیا تھا جس کے جواب میں شاہ شجاع نے شمالی سندھ کو خون میں نہلا دیا تھا۔ یہ سب خون میں نہلائی ہوئی لتھڑائی ہوئی تاریخ تو ہے لیکن سندھ کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ سندھ پر غیر ملکی حکمران و فاتحین اور ان کے لشکر آئے اور شاذ ونادر ہی واپس گئے بلکہ سندھ میں ہی رچ بس کر مر کھپ گئے۔

یہ بھی کہتے ہیں جو سندھی ٹوپی ہے یہ اصل میں افغانی ٹوپی ہے جسے احمد شاہ ابدالی کے سپاہی سندھ لائے تھے۔ پھر شکارپور میں پٹھانوں کی کڑی عطا محمد اور کڑی نواب کے نام سے محلے ہیں (کہ قلی افغانستان میں محلے یا بستی کو کہتے ہیں۔ یا پھر کوٹ سلطان ہو کہ ٹھٹھہ و مکلی کے زندہ لوگوں کے محلے مردہ لوگوں کا شہر اس کا پتہ دیتے ہیں۔) شاہ عبدالطیف نے بھی ایک جگہ کہا کہ 'کاک محل کے کنارے پردیسیوں کی قبریں دیکھو'۔

حیرت ہے کہ سر سسی جہاں سسی کا تو واسطہ پنوں اور اس کے رشتہ داروں سے تھا، لیکن اسی سر میں شاہ لطیف سسی کی زبان میں کہتا ہے 'میرا پٹھانوں سے پالا پڑا ہے، جو کوئی اور زبان نہیں سمجھتے۔ میں سندھی میں بات کروں تو وہ پشتو میں جواب دیتے ہیں'۔

گیارھویں، بارھویں صدی سے ہی افغانستان سے صوفیوں اور برگزیدہ ہستیوں کی سندھ آمد ہوئی اور پھر آج تک ان کی نسلیں سندھ میں ہی رچ بس گئیں۔ آج کے افغانستان میں مروند سے برگزیدہ صوفی عثمان مروندی بالمعروف لال شہباز قلندر سندھ میں سیوہن آ کر آباد ہوا اور آج تک تمام عالم میں 'سندھڑی کا شہباز قلندر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہاں کافیاں (آستانے) پٹھانوں کے بھی ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خود آبا واجداد کہیں اور سے آ کر سندھ آباد ہوئے۔ جبکہ سندھی قوم پرستی کے بانی جی ایم سید کے آبا واجداد ہرات (افغانستان) سے سندھ میں آ کر آباد ہوئے۔ نیز سرہند سے آئے ہوئے بزرگوں کی اولادیں آج تک سندھ میں سر ہندی کہلاتی ہیں۔

آج بھی شکارپور اور کوٹ سلطان اور پٹھان گوٹھ حیدر آباد کے بڑے بوڑھے سندھی کے ساتھ پشتو بولتے ہیں۔ افغانستان سے کوچی یا پاوندوں کے قافلوں کی سندھ کے میدانوں اور صحراؤں میں آمدورفت صدیوں سے جاری رہی ہے۔ اور ایک بڑی تعداد سندھ میں رچ بس گئی۔ ان میں سے کئی کی اولادیں سندھی میڈیم سکول میں پڑھی ہیں۔

انگریزوں کے دور حکومت میں سندھ سے شکار پور اور حیدر آباد کے ہندو بیوپاریوں کی کوٹھیاں کوئٹہ، چمن وقندھار تک رہیں۔ کوئٹہ کی فروٹ مارکیٹ پر سب سے بڑی اجارہ داری سندھی ہندو بیوپاریوں کی تھی اور تقسیم کی خونریزی کا پہلا شکار بھی کوئٹہ میں سندھی ہندو تھے۔

سانگھڑ اور اس کے اردگرد پشتونوں کے کئی خاندان آباد ہیں جو سندھی بولتے ہیں اور ان کی کئی نسلیں آج تک سندھی میڈیم سکول سے پڑھی ہوئی ہیں۔ سانگھڑ میں بسنے والے پشتونوں کے آبا واجداد موجودہ صوبہ پختونخوا سے سندھ انگریزوں کی فوج میں تھے اور ان کو پیر پگاڑو کے حروں کی بغاوت کی سرکوبی کے لئے لا کر آباد کیا گیا تھا۔ سانگھڑ میں پنجابیوں کے چکوال کے ساتھ کچھ چک پٹھانوں کے بھی ہیں۔ لیکن آج ان کی اولادیں حروں کی قربانیوں کے گن گاتی ہیں۔

سندھ کے شہروں کراچی حیدر آباد اور اس سے ملحقہ صنعتی علاقے کوٹری میں پشتون آبادی کا سابقہ صوبہ سرحد سے ایک بڑا ریلہ ایوب خان کے دور حکومت میں آیا جب ان کے سمدھی حبیب اللہ خان کو کراچی کارخانے لگانے کے لائسنس جاری ہوئے۔ جبکہ ایوب خان کی حکومت کی انڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے یا تلاش روزگار بھی سابقہ صوبہ سرحد سے پشتونوں کی آبادیاں کراچی نقل مکانی کر کرکے آئیں۔ لیکن کراچی سمیت سندھ کے دیگر صنعتی علاقوں اور روزگار میں کھپ جانے والے پشتونوں کی ایک بڑی تعداد سندھ اور ملک کی ٹریڈ یونین تحریک کا مضبوط حصہ بھی بنی۔ چھوٹے سے بڑے کام پشتونوں نے سرانجام دیے۔

پشتون جدید کراچی کا اصل معمار ہے کہ روشنیوں کا شہر اس کے پسینے سے اور اندھیروں میں تبدیل اس کے بے گناہ خون سے ہوا تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

کسی پوش یا محنت کش آبادی کی پتلی گلی میں سرد شاموں کو دور ہی سے دکھائی جانے والے آگ کے شعلے میں جو کہ لکڑی کی ریڑھی پر گرم ریت میں بھنی ہوئی مونگ پھلی بیچنے سے لے کر، زمین پر کدالیں چلا کر، کھدائیاں کرنے، مٹی بھرنے، چوکیدارا، ٹرانسپورٹ، ہوٹل، چائے خانے، کپڑوں، میوہ جات، کوئلے کی کان کنی سے لے کر رئیل اسٹیٹ اور ہزاروں کاموں میں پختون ہی نظر آیا۔ پولیس اور فوج میں بھی پختون کا قابل ذکر حصہ موجود ہے۔

1962ء میں فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات کے دنوں میں کراچی میں مہاجر، پٹھان فساد کا بیج بویا گیا جب لیاقت آباد میں ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب کے انتخابی جلوس میں سے کچھ شرپسندوں نے مبینہ طور پر گوہر ایوب خان کی قیادت میں مہاجر آبادیوں پر فائرنگ کی اور آگ بھی لگائی تھی۔ اسی طرح اردو اور سندھی آبادیوں اور پشتونوں کے درمیان تناؤ اس وقت بھی شدید ہوا جب ایوب خان کے خلاف 1968 میں تحریک چل اٹھی تھی اور لیاقت شو مارکیٹ حیدر آباد کے پاس ایوب خان مخالف جلوس پر پشتون اکثریتی کاروباری علاقے سے فائرنگ ہوئی تھی۔ ایوب خانی آمریت نے ہی مہاجر، پشتون اور باقی آبادیوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا جب اس نے کہا تھا ''مہاجر اس سے آگے اور کہاں جائیں گے؟ آگے ان کے لئے سمندر ہے''۔

سندھ اور پشتونوں کے سیاسی رشتے

1950ء ہی کی دہائی سے سندھ کے قابل احترام رہنما جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی ودیگر اکابرین عظیم پشتون باچا خان عبدالغفار خان کے ساتھ ان کی بنائی ہوئی آزاد پاکستان پارٹی میں ساتھ اور انتہائی سرگرم رہے تھے۔ دوسرے رہنمائوں میں عبدالصمد خان اچکزئی (محمود خان اچکزئی کے والد) اور پنجاب سے میاں افتخار الدین بھی شامل تھے۔ پھر جب باچا خان اور سابق مشرقی پاکستان سے عبدالحمید بھاشانی نے نیشنل عوامی پارٹی قائم کی تو جی ایم سید کا اس میں اہم کردار رہا تھا۔

جی ایم سید 1956ء میں پاکستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں رکن منتخب ہو کر آئے تھے اور باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب حزب مخالف کے لیڈر تھے۔ جی ایم سید پاکستان قانون ساز اسمبلی کے انتہائی فعال اپوزیشن رکن اور منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین تھے۔ نیز وہ اسمبلی کے اندر یا اسمبلی کے باہر ون یونٹ کے خلاف باچا خان کے شانہ بشانہ اور انتہائی سرگرم تھے۔ پاکستان قانون ساز اسمبلی کے اندر جی ایم سید کے قریبی ساتھی اور رکن رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی نے ون یونٹ کے خلاف قرارداد پیش کی تھی تو جی ایم سید غفار خان، باچا خان اور ان کے دیگر پشتون ساتھیوں کی مدد سے بلکہ ممتاز محمد خان دولتانہ سمیت اکثریت کی معاونت سے ون یونٹ ختم کرنے کی قرارداد کے حق میں حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اسی موقع پر جی ایم سید نے مغربی پاکستان اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا تھا: ''بعض لوگ ہمارے صوبے یا دوسرے صوبے میں یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ ون یونٹ پنجابیوں نے بنایا ہے۔ میں اس کی تائید نہیں کرتا۔ نہ اس میں پنجاب والوں کا قصور ہے نہ سندھ والوں کا۔ یہ چند اشخاص تھے جنہوں نے ذاتی فوائد کے لئے یہ تجویز بنائی۔'' (مارچ 17، 1957(Provincial Assembly of West Pakistan debates pp: 240)

اور پھر فوجی آمر ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ جی ایم سید اور باچا خان ودیگر پشتون و بلوچ اکابرین پر قید وبند کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باچا خان کے بیٹے ولی خان نے جب نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت سنبھالی تو بلوچوں اور پشتونوں کے علاوہ سندھی شخصیات بھی اس میں شامل و سرگرم رہیں جن میں حفیظ قریشی، رسول بخش پلیجو، باقر علی شاہ، بیرسٹر شیخ عزیزاللہ (جو ماضی قریب میں آصف زرداری اور نواز شریف کے دفاعی وکیل بھی رہے اس سے قبل حیدر آباد سازش کیس میں ولی خان کے وکیل اور پھر اسی مقدمے میں ان کے ساتھ جیل میں بھی رہے) اور آگے چل کر مہر حسین شاہ، کامریڈ غلام محمد لغاری، نبی بخش کھوسو، اور جام ساقی ن ع پ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری اور مرکزی کمیٹی کے رکن ن ع پ پر بندشیں رہیں۔

سابقہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلا دیش بننے اور باقی ماندہ پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے شروعاتی دنوں میں کراچی نشتر پارک میں نیشنل عوامی پارٹی کا کنونشن ہوا تھا جس میں خان عبدالغفار اور شیخ عبدالمجید سندھی بھی شریک تھے۔

اجمل خٹک اور ان کی شاعری سندھ اور سندھیوں کے لئے کبھی نئی نہیں رہی۔ نہ ہی عبدالغنی خان کی شاعری کے تراجم سندھی ادب اور شاعری پڑھنے والوں کے لئے نئے ہیں۔

شیخ ایاز نے خوشحال خان خٹک پر ایک نظم لکھی ہے۔ جب کہ شیخ ایاز کی سندھی شاعری کے ایک مجموعے کا پہلا صفحہ ایک پشتو کے ٹپے سے شروع ہوتا ہے ''ماں میری زلفیں مت تراش کہ تراشیدہ درخت پر باز نہیں بیٹھا کرتے۔''

حسن درس دوسرا سندھی شاعر ہے جس نے خیبر ایجنسی کی قبائلیت کے چنگل سے بھاگ کر پشاور پہنچنے والی ایک پختون لڑکی کو کردار بناتے ہوئے نظم لکھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو ان کے دو پشتون ساتھیوں عنایت اللہ گنڈا پور اور حیات محمد خان شیر پاؤ پی پی پی کے سندھی جیالوں اور حامیوں میں کافی مقبول رہے۔ عنایت اللہ گنڈا پور تو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھٹو پر ناکام قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ بھٹو کے ہی دور حکومت میں یہ اس وقت کے فرنٹیئر کور کے کمانڈنٹ میجر جنرل نصیر اللّٰہ بابر تھے جنہوں نے پاکستان اور افغانستان کے بیچ سردار داؤد اور بھٹو کے زمانے میں کشیدگی کے دوران اس وقت کے افغان منحرفین حکمت یار، عبدالرسول سیاف ودیگر کو پاکستان میں سیاسی پناہ دلوائی اور بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں طالبان کی سرپرستی میں ساجھے دار رہے۔ قطع نظر اس کے ضیا الحق کے مارشل لا کے دنوں میں نصیر اللہ بابر اپنی قربانیوں، قید وبند کی وجہ سے ناصرف سندھی جیالوں میں مقبول رہے، بلکہ ہری پور جیل میں وہ اور پروفیسر اسماعیل (گلالئی اسماعیل کے والد) ان دنوں کئی سندھی سیاسی قیدیوں کے ساتھ رہے۔ ان سندھی سیاسی قیدیوں میں اس وقت کے پی پی پی کے احمد علی سومرو اور لالہ لیاقت بھی تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی کے قریب بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا ملک گیر اتحاد پاکستان فیڈرل یونین آف سٹوڈنٹس کے بینر تلے ہوا تھا جن میں سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجاب سٹوڈنٹس کاؤنسل، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اور پختون سٹوڈنٹس فیڈئریشن شامل تھے۔ اس وقت کے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بعد میں پشاور یونیورسٹی یونین کے صدر افراسیاب خٹک انہی دنوں سے آج تک سندھ میں مقبول نام ہیں۔ اس کے علاوہ مختار باچہ اور شیر علی باچہ اور افضل بنگش بھی۔

لیکن یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے پشتونوں اور سندھیوں کے درمیان نیشنل عوامی پارٹی پر ریاستی جبر اور اس کے لیڈروں اور کارکنوں پر تشدد کے ریکارڈ قائم کرکے ایک بڑی خلیج پیدا کی تھی۔ اس کی ایک بڑی بہیمانہ مثال لیاقت باغ راولپنڈی میں 23 مارچ 1973ء میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فیڈریشن (یو ڈی ایف) کے جلسے پر اندھا دھند فائرنگ تھی جس میں عبدالحفیظ پیرزادہ اور کھر کی سرکردگی میں شرکا پر بدنام زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کی طرف سے فائرنگ کی گئی تھی جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے کئی کارکن وپشتون قتل ہوئے تھے جن میں اجمل خٹک کے قریبی عزیز بھی شامل تھے۔ اجمل خٹک افغانستان خود جلا وطنی اختیار کر گئے جہاں وہ ایک طویل عرصے تک رہے۔

اپنی کابل میں جلا وطنی کے دوران اجمل خٹک نے بھٹو برادران (مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو) سمیت کئی سیاسی جلا وطنوں بشمول سندھیوں کی مدد کی۔ ان میں اپنے دور کے سندھ میں بائیں بازو کے طالب علم رہنما سرفراز میمن بھی شامل ہیں جو آج کل جرمنی میں جلا وطن لیکن اس وقت کوما میں ہیں۔ بقول سرفراز میمن کے وہ جب غیر قانونی طور پر پاکستان سرحد پار کرکے افغانستان داخل ہوئے تو حفیظ اللہ امین کی کمیونسٹ حکومت کے اہلکاروں نے انہیں گرفتار کر لیا اور بارہا اصرار پر کہ وہ ضیا الحق کی فوجی آمریت کے جبر کے شکار ہو کر آئے ہیں انہیں پاکستانی جاسوس گردان کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ جاسوسی کے الزام میں اسے سزائے موت سنا کر پل چرخی جیل ڈال دیا گیا کہ اس نے رہا ہوتے ایک ساتھی قیدی کے ذریعے اجمل خٹک کو پیغام بھیجا تھا۔ تبھی سرفراز میمن کو اجمل خٹک کی مداخلت پر رہائی ملی تھی۔

اجمل خٹک کے علاوہ افضل بنگش بھی تھے جن کی مدد اور ان کے گاؤں میں پناہ سے ضیا فوجی آمریت کے کئی سیاسی منحرفین افغانستان پہنچے۔

نیشنل عوامی پارٹی کے سابق رہنما جمعہ خان صوفی جو سردار داؤد کے دور حکومت میں کابل میں خود ساختہ جلا وطنی میں رہتے رہے تھے اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سردار داؤد کے دنوں میں سندھ سے اس وقت کے سندھی قوم پرست طالب علم رہنما شاہ محمد شاہ (آج کل نواز مسلم لیگ سندھ کے لیڈر)، اسماعیل وسان، اور قمر راجپر اپنے رہنما جی ایم سید کا پیغام سردار داؤد کے لئے لے کر آئے تھے کہ وہ سندھیوں کی مدد کریں۔ داؤد خان نے بقول جمعہ خان صوفی ان سے کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھ پا رہے کہ سندھیوں کی کس تعلق کی بنا پر مدد کریں کہ پشتونوں سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ جب کہ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح بلوچوں سے بنتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین پر تمام سیاسی رہنمائوں کو ایک صفحے پر لانے کے لئے ولی خان اور ان کی پارٹی کے اراکین کو کہلوانے کے لئے جی ایم سید کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نیشنل عوامی پارٹی پر سپریم کورٹ میں ریفرنس کے ذریعے بندش کے بعد شاہ محمد شاہ اور ان کے ساتھیوں اور یوسف جکھرانی سمیت کئی سندھی قوم پرستوں اور بائیں بازو کے لوگوں نے شیر باز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کی طرف سے قائم کردہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ''ولی خان میرے والد اور نسیم ولی خان میری والدہ ہیں''، شاہ محمد شاہ نے ایک دفعہ ایک جلسے میں کہا تھا۔

ولی خان اور ان کے بلوچ وپشتون ساتھیوں کے ساتھ جام ساقی، عزیز اللہ شیخ، میر علی بخش تالپور جیسے سندھی بھی حیدر آباد سازش کیس میں ملوث کئے گئے تھے۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پی این اے تحریک کے دوران نسیم ولی خان کو گرفتار کیا تو حیدر آباد کے احتجاج میں پشتونوں کے ساتھ سندھی بھی شامل تھے جن میں میر شیر محمد تالپور پولیس فائرنگ میں ہلاک ہوا تھا۔ میر شیر محمد تالپور، تالپور برادران میر علی احمد تالپور اور رسول بخش تالپور کے قریبی عزیز تھے۔

لیکن عام سندھیوں میں اس وقت ولی خان کی مقبولیت وشہرت کو سندھ میں دھچکا لگا جب ضیا الحق کی فوجی آمریت کے شروعاتی دنوں میں ولی خان حیدر آباد سنٹرل جیل سے آزاد ہوئے اور انہوں نے 'پہلے احتساب پھر انتخابات' جیسا بیان دیا اور یہ بھی کہا کہ ''بھٹو زخمی سانپ ہے اس کا سر کچل دینا چاہیے''۔

مگر جب ولی خان نے اپنی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بنیاد رکھی تو کئی سرکردہ سندھی رہنما وسیاستدان ان کی پارٹی میں شامل ہوئے جن میں ان کے ساتھ اتحاد میں رسول بخش پلیجو، فاضل راہو اور ان کی پارٹی عوامی تحریک اور شمولیت کرنے والوں میں حاکم علی زردادی بھی شامل تھے۔ بلکہ عوامی نیشنل پارٹی کا پہلا بنیادی کنونشن حاکم علی زرداری کی رہائش گاہ پر کراچی میں ہوا تھا۔

ولی خان اور عوامی نیشنل پارٹی ضیا الحق کے خلاف ملک میں تحریک بحالی جمہوریت کا موثر اور سرگرم حصہ رہے۔ وہ سندھ میں مقتول رہنما فاضل راہو کی برسی کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے اور جام ساقی کیس میں ان کے دفاعی گواہ کے طور پر خصوصی فوجی عدالت کے سامنے بیان دینے آئے۔ کئی مواقع پر ولی خان کو ضیا الحق فوجی آمر انتظامیہ نے سندھ بدر بھی کیا۔ سندھی قوم پرستوں کی ایک اچھی خاصی تعداد عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوئی۔ بائیں بازو کے لوگ اور کمیونسٹ پارٹی والے تو میر غوث بخش بزنجو اور اس کی پارٹی پاکستان نیشنل پارٹی کو چھوڑ کر عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔

1980ء کی دہائی کے وسط میں باچا خان عبدالغفار خان جی ایم سید کی دعوت پر ان کی سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کرنے ان کے آبائی گاؤں سن آئے تھے۔ ایک ایسی ہی تصویر جو آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جئے سندھ کے نوجوانوں ودیگر سندھی قوم پرستوں نے جامشورو میں باچا خان کا شاندار استقبال اور اس خوشی میں کچھ نوجوانوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی تھی۔ اس پر خان عبدالغفار خان نے جی ایم سید سے شکایت کی تھی کہ ''ان کے لڑکوں کی طرف سے استقبالیہ ہوائی فائرنگ پر انہیں بہت افسوس ہے''۔

نیز سندھی قوم پرست پارٹیوں پلیجو، قادر مگسی، جلال محمود شاہ ودیگر کی سربراہی کے ساتھ کالا باغ، بھاشا ڈیم و دیگر مسائل پر محمود خان اچکزئی کی پارٹی کا پونم کے نام سے اتحاد رہا ہے۔ جب کہ نیشنل عوامی پارٹی سندھی قوم پرستوں کے ساتھ کالا باغ ڈیم منصوبے کے خلاف سندھ میں دھرنوں اور جلسوں جلوسوں میں شامل رہی تھی۔

سندھ میں مہاجر - پشتون لسانی فسادات

1980ء کی دہائی میں کراچی میں منی بس کے نیچے آ کر حادثے میں طالبہ بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد پشتون مہاجر فسادات بھڑک اٹھے جن میں ناصرف دونوں جانب سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں بلکہ ان فسادات نے کراچی اور شہری سندھ کا تمام سماجی وسیاسی نقشہ شب و روز ڈانواں ڈول کر دیا۔ اتفاق سے حادثے کی شکار بشریٰ زیدی کا تعلق اردو بولنے والی کمیونٹی سے تھا اور منی بس والے یا کراچی پر پبلک ٹرانسپورٹ چلانے اور اس کی مالک یا روزگار کرنے والوں کی اکثریت پشتونوں کی تھی۔ ان فسادات میں مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور سرور اعوان کا پنجابی پٹھان اتحاد فریق تھے اور یہی سامنے ابھر کر آئے۔ ضیا فوجی آمریت کو طول پکڑنے کی گویا ایک اور لمبی رسی مل گئی۔ یہ فسادات کئی برسوں تک وقفوں وقفوں سے جاری رہے۔ کراچی میں کورنگی، اورنگی، لانڈھی، ناظم آباد، شاہ فیصل کالونونی نمبر ایک اور دیگر کئی علاقے مہاجر- پشتون خونریزی کی نذر ہوئے۔

مہاجر- پشتون فسادات کی چند ان کہی کہانیاں

یہ ایم کیو ایم کے شروعاتی دن تھے۔ 'شرفا کمیٹیاں' اور 'سیکٹر' کراچی کے کئی علاقوں میں قائم ہو گئے تھے۔ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک میں لکڑی کی ٹال جو پشتونوں کی تھی اس میں اس کے سوئے ہوئے مالکان سمیت آگ لگا دی گئی اور وہ سوئے ہوئے لوگ زندہ جل گئے۔

اسی شاہ فیصل کالونی میں ایک پشتون لڑکا جو انہی اردو بولنے والے لڑکوں جو اب 'شرفا کمیٹی' شاہ فیصل کالونی نمبر ایک میں شامل تھے کے ساتھ بڑا ہوا اور کرکٹ کھیلتا تھا، اس کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پہلی کلاشنکوف بھی شاہ فیصل کالونی میں پہنچی تھی۔

یہ سب کچھ الطاف حسین کی شاہ فیصل کالونی میں ایم کیو ایم بنانے کے بعد پہلے دورے کے بعد ہوا۔ جب وہ پہلی بار شاہ فیصل کالونی آئے تھے اور ان کی پیجارو جیپ کے آگے آفاق احمد کلاشنکوف اٹھائے چل رہا تھا۔ ان دنوں ایم کیو ایم میں آفاق احمد 'ڈی ایس پی صاحب' کے نام سے مشہور تھا۔

علی گڑھ کالونی پر حملے کے دوران ایک ویڈیو ریکارڈ کی گئی اور اس سے واقف لوگوں نے دیکھا کہ پشتون حملہ آوروں کے شانہ بشانہ فائرنگ کرتے چند ایک سندھی قوم پرست بھی نظر آتے ہیں۔ جب کہ اسی فساد کے دنوں میں گاڑی کھاتہ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے فسادیوں کے ساتھ ان کے کچھ سندھی لوگ دوست بھی شامل تھے، جب انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک پختون کارکن کو قتل کیا تھا۔

کرفیو، خونریزی، آتش زنی، اور نقل مکانی کا ان فسادات میں لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ تب ہی ریلوے پھاٹک سے جب میرے ایک دوست ذوالفقار شاہ جو سندھ یونیورسٹی میں کام کرتے تھے چھٹی کے وقت کراچی سے آنے والی بس میں چڑھے تو اس بس میں پہلے سے سوار پشتون کنبے بچوں میں چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ اور وہ بس جس بھی سٹاپ پر رکتی اور جب نئے مسافر بس پر چڑھتے تو ان بچوں میں چیخ وپکار شروع ہو جاتی۔ یہ بچے جو اپنے فسادات سے متاثرین ماں باپ کے ساتھ کراچی سے صوبہ پختونخوا نقل مکانی کر کے جا رہے تھے، ان کے ماں باپ کا کہنا تھا کہ فسادات کے دوران ان کے گھروں پر حملہ ہوا تھا، تب سے یہ بچے کسی بھی نئے آدمی کو دیکھتے ہی خوف کے مارے بس چیخ وپکار شروع کر دیتے ہیں۔

آج کے سندھ میں سندھی اور پشتون

حالیہ دنوں میں سندھی پشتون کشیدگی سندھ کی تاریخ میں پہلی بار ابھر کر سامنے آئی ہے جو کہ ایک ذاتی جھگڑے یا دونوں طرف داد گیری سے شروع ہوئی اور قتل پر منتج ہو کر آج کے سندھ کے سیاسی وسماجی افق پر 1980 اور 90 والے تیزابی بادل اکٹھے کر رہی ہے۔

ہوا یہ کہ عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز حیدر آباد میں وادھو واہ کراچی بائی پاس پر بنے ایک ریستوران 'سلاطین ہوٹل' پر بلال کاکا نامی ایک سندھی نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ رات گئے کھانا کھانے گیا۔ کھانے کے آرڈر پر اس نوجوان، اس کے ساتھیوں اور سلاطین ہوٹل کے مالک شاہ سوار اور اس کے ملازمین کے مابین تلخ کلامی کا تبادلہ اور پھر جھگڑے کی صورت اختیار کر گیا جس میں فائرنگ اور آہنی سلاخوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ نوجوان بلال کاکا موقع پر ہی ہلاک جبکہ ہوٹل مالک شاہ سوار سخت زخمی ہوا۔ واقعے پر مقتول کے ورثا اور شہریوں کی طرف سے قومی شاہراہ پر دھرنے کے بعد واقعے کی ایف آئی آر کاٹی گئی اور ہوٹل سلاطین کا مالک شاہ سوار گرفتار کیا گیا۔ یہ ایک انتہائی ذاتی جھگڑے کا واقعہ تھا جو دونوں اطراف کے انتہا پسند گروہوں اور بے راہ رو ٹولوں کی طرف سے لسانی رنگ دینے کے بعد نسلی کشیدگی میں تبدیل ہو گیا ہے جسے اب کچھ سندھی قوم پرست رہنما 'قومی جنگ' قرار دے رہے ہیں۔ صوبے میں رہنے والی دیگر قومیتوں اور برادریوں جنہیں عام طور یہ گروہ چاہے بظاہر سنجیدہ کہلانے والے حلقے بھی 'دھاریاں' ( غیر) کہتے ہیں، خاص طور پر افغانوں اور پشتونوں کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے۔ بلکہ پشتونوں کو بھی 'افغانی پشتون' کہا جا رہا ہے۔

دوسری طرف پشتون اور سندھی انتہا پسند گروہوں اور افراد نے کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں مخصوص افراد اور کمیونٹیز یعنی سندھی اور پشتونوں، ان کے کاروبار، آبادیوں اور نقل وحرکت کی پرتشدد تو کہیں دھمکی آمیز ناکہ بندی کی ہے اور کہیں ان پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں الاصف سکوائر سپر ہائی ویز پر گاڑیوں اور مسافر بسوں کو روک کر سندھی عورتوں اور مردوں کو شناخت کرکے ان پر تشدد کیا گیا جس سے ایک شخص کی ہلاکت کی بھی خبریں ہیں۔ جمالی پل سے ملحقہ سندھی مضافات کا گھیراؤ اور ان پر فائرنگ بھی ہوئی۔ 'دو سندھی لڑکیوں کے اغوا' کی افواہیں بھی پھیلتی رہیں۔ کراچی کے سندھی اکثریت والے علاقوں میں بھی پشتونوں کے چائے خانے و دیگر دکانیں زبردستی بند کرائی گئیں۔ اور بند کرانے والوں نے نعرے لگائے 'افغانیوں سندھ خالی کرو'۔

اندرون سندھ نوشہرو فیروز، سانگھڑ کے شہر بیرون میں انتہا پسند ٹولے اور افراد جن میں نوشہرو فیروز کے بازار میں کچھ کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق سندھ ترقی پسند پارٹی اور عوامی تحریک سے ہے، پشتونوں کے کاروبار، دکانیں اور چائے خانے 'مستقل بند' کہتے بند کرواتے رہے۔ اور اس کیساتھ ساتھ اس موقع کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی ڈالتے رہے تو کہیں لائیو کرتے رہے۔ "اگر کل دکانیں کھولیں تو نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہے، تمہارے کان کاٹ دیے جائیں گے"، نوشہرو فیروز میں پشتونوں کی دکانیں بند کروانے والی ویڈیو میں ایک شخص کہتا سنا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب الاصف سکوائر پر ایس پی پولیس اور رینجرز کرنل کی موجودگی میں ایک شخص جو خود کو 'آل کراچی ہوٹل ایسوسی ایشن' کا صدر بتا رہا ہے، کہتا ہے کہ "اگر پٹھانوں کے ہوٹلوں اور کاروبار پر حملے نہ روکے گئے تو کل حالات کی ذمہ داری انتظامیہ پر ہوگی"۔

اب سندھی قوم پرستوں اور کئی عام سندھیوں کے حلقوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ' پشتون کاروبار کا بائیکاٹ' اور چائے خانوں سمیت پشتونوں کے سندھ میں دیگر کاروبار ان کی جگہ سندھیوں کو سنبھالنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ پشتونوں کا کاروبار سندھیوں کو سنبھالنے کی بات کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ امر نہایت ہی دلچسپ ہے کہ سندھ میں گندگی کے ڈھیر بنے چھوٹے بڑے کئی شہروں میں آبائی پیشہ خاکروبی رکھنے والے لوگوں کے روزگار کی جگہ حکمران پی پی پی جیالوں اور ان کے عزیز واقارب سے پر کی گئی ہیں جو صرف تنخواہیں اٹھاتے ہیں اور اسی طرح اصل خاکروبوں کی روزی پر لات مار دی گئی ہے۔

حیدر آباد کے سینئر اور تحقیقی صحافی اسحاق منگریو نے مجھے بتایا کہ "پشتونوں کی چینک چائے اور پراٹھے کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ سندھی آبادی قاسم آباد میں بھی مجھ سمیت کام پر جاتے ہوئے لوگ فاسٹ 'بریک فاسٹ' کرکے کام اور دیگر معمولات پر روانہ ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں"۔

ایک اور نوجوان صحافی نے مجھے بتایا کہ وہ کئی دفعہ مذکورہ سلاطین ہوٹل پر دوستوں سمیت کھانا کھانے جاتے رہے ہیں کہ یہ ہوٹل بکرے کی کڑھائی بنانے میں لاثانی ہے، تو کبھی بھی اس کے اسی مالک اور عملے (جو کہ زیادہ تر علاقے کے سندھیوں پر مشتمل ہے سوائے مالک شاہ سوار اور اس کے تینوں بیٹوں کے) کو رویوں اور سروس میں بہتر پایا۔ ایک اور سینئر صحافی نے یہ بھی بتایا کہ "سلاطین ہوٹل پر کئی بار رات گئے اپنے دوستوں سمیت 'دارو' لے کر گئے ہیں، بیٹھ کر وہاں پی ہے لیکن ایسی کوئی بدمزگی نہیں ہوئی"۔ قانونی طور پر سلاطین ہوٹل کراچی بائی پاس پر ایک سٹاپ یا ریسٹ سٹاپ کے طور پر نہ بائی پاس کے نقشے میں ہے نہ اسے کوئی قانونی اجازت نامہ حاصل ہے۔

کچھ ذرائع نے مجھے بتایا کہ وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ آنے والے مقتول بلال اور اس کے دوستوں نے شراب پی رکھی تھی۔ زبانی تکرار کے بعد وہ سلاطین ہوٹل سے گئے اور پھر گاڑیوں میں لوگ بھر کر واپس آئے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ بلال کاکا حیدر آباد کی آسرا یونیورسٹی پر چلنے والی تکرار کے بعد ایک فریق کی طرف سے 'چیف سیکیورٹی افسر' تھا اور یہ اور اس کے ماتحت گارڈز مسلح ہوا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ آسرا یونیورسٹی کی 'ملکیت' پر دو پروفیسروں، پروفیسر قاضی اور پروفیسر اشرف لغاری کے درمیان تکرار کے بعد اب قبضہ پروفیسر لغاری کے ہاتھ میں تھا اور کاکا اور اس کے ساتھی اسی قبضے کو برقرار رکھنے کو بھرتی کئے گئے تھے۔

بہرحال سندھی قوم پرستوں کو ارشاد رانجھانی کے بعد بلال کاکا ایک اور ذاتی تکرار میں قتل ہونے کے بعد شہید اور ہیرو مل گیا ہے۔ پشتونوں اور سندھیوں کو سندھ میں لڑانے کے جو منصوبے کئی برسوں سے جاری تھے آخرکار انہوں نے پھر اپنا گندا سر اٹھایا ہے۔ اب یہ کشیدگی کچھ سندھی قوم پرست گروپوں جن میں جئے سندھ قومی محاذ یا جسقم بھی شامل ہے کی طرف سے 'گو افغان گو' تحریک کے اعلان میں بدل چکی ہے۔ 'سندھ میں رہے گی ایک ہی قوم، سندھی قوم سندھی قوم' کے نعرے بھی لگ رہے ہیں۔

جئے سندھ قومی محاذ کے موجودہ چیئرمین نیاز کالانی کی قیادت اور معروف سندھی شاعر اور ادیب تاج جویو کی معیت میں حیدر آباد میں 'دھاریاں سندھ خالی کرو' کے بینر تلے گذشتہ ہفتے قاسم آباد سے حیدر آباد پریس کلب تک ریلی بھی نکالی جا چکی ہے۔ اس موقع پر نیاز کالانی نے کہا کہ "افغان سندھ سے نکل جائیں، اگر پشتون ان کی حمایت کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے بھائی نہیں۔ اگر پشتون سندھ سے خود کو وفادار سمجھتے ہیں تو سندھ میں ان کو جو چالیس لاکھ شناختی کارڈز جاری کئے گئے ہیں ان سے دستبردار ہوں۔ پشتونوں کو بھی سندھ میں املاک خریدنے کا کوئی حق نہیں چاہے وہ 100 سال سے سندھ میں رہ رہے ہوں"۔ نیاز کالانی نے جلسے میں شرکا سے یہ بھی کہا کہ ان کی اس تقریر کی ویڈیو جا کر افغانوں کے چائے خانوں پر بیٹھے سندھی گاہکوں کو بھی دکھائیں۔

اس سے قبل سندھی قوم پرست تنظیموں قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک ودیگر پارٹیوں پر مشتمل اتحاد 'سندھ ایکشن کمیٹی' کے ہنگامی اجلاس میں ایک قراداد منظور کی گئی جس کے نکات میں 'تمام افغان مہاجرین ودیگر غیر قانونی تارکین وطن' کو اپنے ممالک کو واپس بھیجا جائے، دیگر صوبوں سے سندھ میں آباد لوگوں کے ووٹ دینے اور صوبہ سندھ میں املاک خریدنے پر پابندی، اور شہریت دینے کا اختیارات صوبوں کو دینے کے مطالبات کئے گئے ہیں۔ اور سندھ ایکشن کمیٹی نے بھی ایک بڑا جلسہ حیدر آباد میں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اب روٹی بوٹی پر جھگڑے کے نیتیجے میں ہونے والے ایک قتل نے سندھ کو سندھیوں اور دیگر صوبوں سے آ کر سندھ میں آباد ہونے والے لوگوں میں عموماً اور خاص طور پر پشتونوں اور افغانوں کے ساتھ سندھی قوم پرستوں کے لسانی یا نسلی کھنچائو میں بدل دیا ہے۔ 'سندھ میں دھاریاں نامنظور'، 'گو افغان گو' اور 'پٹھانوں اور افغانوں'، 'افغانی پٹھانوں کا کاروباری بائیکاٹ' کے نعرے سنے اور دکھائی دے رہے ہیں جو سندھ میں (اگر سندھی اور پشتون لیڈرشپ اور وفاقی اور سندھ حکومتوں نے سنجدیدہ امن کی کوششیں نہیں کی) ایک بڑے خونی طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

ادھر منظور پشتین کی طرف سے کراچی میں پشتون تحفظ موومنٹ کا 'قومی جرگہ' منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ جس اعلان نے پہلے سے ہی اس کشیدگی میں مبتلا سندھیوں میں غم وغصہ پیدا کر دیا ہے۔ حالانکہ منظور پشتین کے 'قومی جرگہ' کے اعلان میں ' سندھی، بلوچ، پشتون مہاجر مظلوموں اور مقتولین' کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اب کی بار سندھی پشتون کھنچاؤ کو کئی سنجیدہ مبصرین سندھ میں کراچی اور حیدر آباد میں ہونے والے آئندہ لوکل باڈیز انتخابات سے نتھی کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے 1988ء میں ضیا الحق کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو روکنے کے لئے ستمبر اور اکتوبر میں نسلی قتل عام کروائے گئے تھے جس میں 6300 سے زائد افراد قتل ہوئے تھے، لیکن پھر بھی سندھی ووٹ تقسیم نہیں ہو سکا تھا جس سے ملک بھر میں جمہوریت کی بحالی ممکن ہو سکی تھی۔