وہ بچپن سے خاموش طبیعت کے تھے۔ نا اپنی صفائی کا خیال رکھتے تھے اور نا ہی پڑھائی میں ان کو کوئی خاص دلچسپی تھی۔ وہ زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے تھے مگر ان کو اپنی منزل معلوم نہیں تھی۔ بچپن سے ان کا خواب ڈاکٹر بننا تھا مگر ایک طرف اگر وہ اپنی صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے تو دوسری جانب ان کی لکھائی بہت خراب تھی اور ساتھ ساتھ دماغ میں بھی کچھ نہیں بیٹھتا تھا۔ان تمام خامیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب ادھورے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=kkATAg_et9c
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پڑھائی میں دلچسپی لینی شروع کی مگر شاید ان کے دماغ میں کوئی خاص نقص تھا کہ ان کوکچھ یاد نہیں ہوتا تھا۔ ان کی زندگی میں اچانک تبدیلی آ گئی اور وہ سکول میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور بریک کے دوران وہ اکیلے ہی کتاب ہاتھ میں پکڑے کسی کونے میں بیٹھا ہوتا تھا اور یہی روٹین ان کی گاؤں میں بھی تھی نہ کسی سے گفتگو نہ کوئی کھیل کود نہ کوئی دوسری سرگرمیاں۔ وہ بس گاؤں کے قریب ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر کتابیں ہاتھ میں پکڑے رٹا لگاتا رہتا تھا شاید آئے روز کی بے عزتیوں اور حقارت بھرے رویوں نے ان کو ذہنی طور پر مائل کیا ہو کہ اب پڑھو تاکہ لوگ تمہاری عزت کریں مگر باوجود ہر کوشش کے وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
میں نے کوئی ایسا دن نہیں دیکھا کہ ان کو ٹیچر کی جانب سے بیس سے کم ڈنڈے پڑے ہو۔ ان کی پٹائی صبح شروع ہوجاتی تھی اور چھٹی ہونے تک چلتی تھی۔ وہ اکثر سکول دیر سے آتے تھے تو دیر سے آنے پر صبح صبح ان کو تین یا چار ڈنڈے پڑتے تھے، پھر جب کلاس میں داخل ہوتا تھا تو ٹیچر بال اور کپڑے گندے ہونے پر تین چار ڈنڈے مارتا تھا اور پھر یہ سلسلہ ہر کلاس میں چلتا تھا کبھی ہوم ورک نہ کرنے پر تو کبھی ٹیسٹ میں کم نمبرز آنے پر ان کو ڈنڈے پڑتے تھے۔
یہ سردیوں کی ایک صبح تھی اور کلاس کے کچھ طالب علموں کو ٹیچر نے انگریزی گرائمر کے ٹیسٹ میں کم نمبر آنے پر سخت سردی میں برآمدے میں مرغا بنایا ہوا تھا اور اس ٹیچر کے غصے اور غضب کا ہمیں پتہ تھا کہ وہ کتنے سخت ڈنڈے مارتا تھا اور پھر پورا دن ہماری ان جگہوں پر درد رہتا تھا۔ اس نے میرے کان کے قریب ہو کر کہا روز کی ذلالت سے تو اچھا ہے کہ بندہ مر جائے۔ مگر ٹیچر کو تو نہ سخت سردی کی پروا تھی اور نہ ہی بعد میں ہماری تکلیف کی بس ان کو ایک کام پسند تھا کہ سکول میں ان کا رعب ہو کہ وہ بہت دہشت والا ٹیچر ہے اور کسی صورت کسی کو معاف نہیں کرتے مگر ہمیں ان سے سخت نفرت تھی۔
وہ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا باپ تعمیرات کے سرکاری ٹھیکے لیتا تھا جس کی وجہ سے ان کا گھرانہ خوشحال تھا۔
وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے مگر گھر میں ان کی ایک ٹکے کی عزت نہیں تھی ایک تو لوگ ان کے والد کو تانے دیتے تھے کبھی ان کے فیل ہونے کے تو کبھی کپڑے گندے ہونے پر ان کی پٹائی کی کہانیاں سناتے تھے۔ والد صاحب تانے سننے کے بعد جب گھر آتے تھے تو نہ صرف سب کے سامنے ان کو گالیاں دیتے تھے بلکہ سخت تشدد بھی کرتے تھے اگلے روز جب وہ کلاس میں آتے تھے تو اپنے والد کے تشدد کے نشانات ہمیں دکھاتے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=Ccaq_rQHMQE
وہ کہتے تھے کہ یار میں ابو سے ناراض نہیں ہوتا اگر وہ گھر میں مجھے گالیاں دیں یا میری پٹائی کریں مگر حجرے میں جب وہ مجھے گالیاں دیتے تھے یا مارتے ہے تو بہت عجیب محسوس ہوتا ہے کیونکہ میرے کزنز مجھ پر ہنستے ہیں اور پھر مجھے رات بھر نیند نہیں آتی۔
سکول کے کلاس روم میں بھی دوسرے کلاس فیلوز ان سے فاصلہ رکھتے تھے اور ان کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ میں بھی پڑھائی میں کچھ خاص نہیں تھا بس حافظہ اچھا تھا اللہ اللہ کر کے پاس ہو جاتا تھا۔ ہم اکثر دونوں ساتھ بیٹھتے تھے کیونکہ ہم دونوں میں ایک چیز مشترک تھی، سکول دیر سے آنا اور دوسرا ہمارے گندے کپڑے کیونکہ ہم دونوں کو نیند اور اپنے گندے کپڑوں سے بہت محبت تھی اور شاید یہی دو وجوہات تھی کہ ہم ایک دوسرے کے قریب تھے۔
کلاس روم میں ٹیچرز ان کو منہ لگانے تک گوارا نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی صورت استاد کے فیورٹ نہیں ہوسکتے تھے، نہ تو پڑھائی میں وہ اچھے تھے اور نہ اپنے صفائی کا خیال رکھتے تھے۔ان پر شفقت اور پیار کے سب دروازے بند تھے جن کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے دور ہوتا چلا گیا۔
سکول میں بریک کا ٹائم تھا میں دور کے ایک کونے میں بیٹھا بہت افسردہ تھا کیونکہ صبح صبح سخت سردی میں ٹیچر نے کپڑے گندے ہونے پر دونوں ہاتھوں پر پورے چار چار ڈنڈے مارے تھے جن کی وجہ سے مجھے بخار تھا۔ وہ دور سے ہاتھ ہلائے میرے پاس آگئے انھوں نے سموسہ ایک کاغذ میں لپیٹا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے سموسہ آدھا آدھا کر کے ایک حصہ خود لیا اور دوسرا مجھے پیش کیا اور کہا آپ کو پتہ ہے میرے ابو کے پاس پیسے ہیں مگر وہ مجھے نہیں دیتے کیونکہ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہے۔ لیکن آج صبح امی نے جیب میں پانچ روپے رکھے تھے اور کہا کہ بیٹا آج سکول میں ان سے کچھ کھا لینا۔
گپ شپ لگاتے ہوئے انہوں نے کہا یار تمہارے تو دو مسئلے ہیں، ایک صفائی اور دوسرا دیر سے آنا۔ اگر ان دو چیزوں کو ٹھیک کرو، پڑھائی میں تو تم ویسے بھی اچھے ہو تو تمہاری عزت واپس آجائی گی مگر میرے تو اس بیغیرت دماغ کا مسئلہ ہے کہ کچھ یاد ہی نہیں کر سکتا اور ہم دونوں نے اس بات پر خوب قہقہے لگائے۔
پڑھتے پڑھتے ہم چھٹی کلاس میں پہنچے اور نائن الیون کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کا ظہور تقریبا شروع ہوا تھا۔ مگر طالبان سے پہلے مقامی نوجوان حرکت المجاہدین اور حزب المجاہدین کے دفتروں میں جاکر کشمیری مجاہدین کی جہادی فلمیں دیکھتے تھے اور بہت سے نوجوان پہلے سے ٹریننگ حاصل کرچکے تھے۔ مگر نائن الیون کے بعد جوانوں، بچوں اور بوڑھوں میں جہاد کا ایک نیا جذبہ سرایت کرچکا تھا۔ مختلف بازاروں میں تیز آوازوں میں جہادی نظمیں پورا پورا دن لگی ہوتی تھی۔ ان دنوں گاؤں کے بازاروں میں جہاد افغانستان کے لئے چندہ جمع ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ صدر بش کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے تھے اور اس کے پتلے نظر آتش کئے جاتے تھے۔ وہ دن آج بھی یاد ہے کہ سو روپے میں بازار سے ایک ایل سی ڈی ایک دن کے لئے کرائے پر مل جاتی تھی اور ہم کشمیر اور افغانستان کے مجاہدین کی سی ڈیز لے کر دیکھتے تھے جن کی وجہ سے کرکٹ اور دوسرے کھیل کھود میں ہماری دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
وہ دن ہمارے لئے دیدنی ہوتا تھا جب گاؤں کے لاؤڈ سپیکروں پر افغانستان میں کسی شہید نوجوان کے جنازے کے اعلانات ہوتے تھے اور پھر دور دور کے علاقوں سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں جنازے میں شرکت کرنے آتے تھے۔
جنازے سے پہلے ایک امیر صاحب چھوٹے لاؤڈ سپیکر پر ان کی بہادری اور شہادت کی روداد بیان کرتے تھے جن کے بعد اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوتے تھے اور اس کے بعد ہم لوگوں کے جم غفیر میں داخل ہو کر اس شہید کے دیدار کو ہر صورت یقینی بنانے کی سر توڑ کوشش کرتے تھے۔ ان تمام شہیدوں کے سینوں پر پھول سجے ہوتے تھے اور اکثر ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھی۔
https://www.youtube.com/watch?v=ZJB3_859W5c
جنازے سے واپسی پر ہم یہی سوچ کر اپنا دماغ تھکاتے تھے کہ کیا شہادت کا یہ عظیم رتبہ ہمیں بھی نصیب ہوجائے گا یا پھر ہم قبر میں تاقیامت مرے پڑے رہینگے کیونکہ مولوی صاحب اور طالبان کا وہ امیر جب روداد بیان کرتے تھے تو یہی کہتے تھے کہ شہید تا قیامت زندہ ہوتے ہیں اور وہ کبھی نہیں مرتے جس کے بعد ہمارے دل میں بھی شہادت کی تمنا جاگ جاتی تھی کہ ہمیں بھی شہادت کا رتبہ حاصل ہوجائے (مگر شاید ہمارے نصیب میں نہیں تھا)۔
ہم روز سکول سے چھٹی ہونے کے بعد سیدھا اس کیمپ میں جاتے تھے جہاں جہادی ترانے لگے ہوتے تھے اور شہداء کی تصویروں کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کا رش بھی دیکھتے تھے جب لوگ چندے میں مختلف چیزیں جمع کراتے تھے اور مجاہدین کی کامیابیوں کے لئے دعائیں کرتے تھے۔
کیمپ میں جانا ہمارا معمول بن چکا تھا اور یہ بھی معمول کا ایک دن تھا کہ سکول سے نکل کر ہم سیدھا کیمپ میں چلے گئے کیونکہ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں چندہ دونگا تو وہ میرا مذاق اُڑاتے تھے کہ تمھارے پاس تو دو روپے بھی نہیں پھر چندہ کہاں سے دو گے، میں جواب دیتا تھا فکر نہ کرو تمہیں لگ پتہ جائے گا۔
اسی دن جب ہم کیمپ پہنچے تو میرے بھائی نے جو گھڑی بہت فرمائشوں کے بعد دبئی سے بیھجی تھی وہ میں نے چندے کے بکس میں ڈال دی کیونکہ اس وقت میرے دل میں ملال تھا کہ اگر میں جہاد میں شرکت کرکے اپنی بہنوں کی عزت نہیں بچا سکتا تو کم ازکم یہ گھڑی تو دے سکتا ہوں۔ وہ میری طرف حیرانی سے دیکھ کر کہہ رہے تھے تمھارے ابو تمھیں مارینگے نہیں، میں نے جواب دیا بھائی قربانی کے لئے تو مشکلات آتی رہتی ہیں اگر وہ مارینگے تو میں برداشت کرونگا۔؎
اگلے دن انہوں نے بھی صبح اپنی امی سے پچاس روپے کسی بہانے لئے تھے اور ہم اسی دن چھٹی ہونے کے بعد دوبارہ کیمپ میں پہنچے اور انھوں نے چندے کے بکس میں وہ پچاس روپے ڈالے باوجود اس کے کہ وہ اس دن بھوکے رہے۔ میں سیدھا بازار سے گھرآیا، گھر آکر ہی امی نے گھڑی کا پوچھا تو میں نے صاف صاف کہا کہ وہ میں نے چندے میں جمع کی ہے جس پر امی نے میرے بال پکڑ کر خوب پٹائی کی اور کہا اگلے دن جا کر گھڑی واپس لے آؤں۔
اگلے روز میں صبح صبح کیمپ پہنچا اور امیر صاحب کے سامنے بہت رویا کہ میری گھڑی مجھے واپس کر دو مگر انھوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کیا کہ تمہاری گھڑی رات کو مجاہدین بھائیوں تک پہنچ چکی ہوگی اور اگلے کئی روز تک میں امی سے مسلسل مار کھاتا رہا اور کئی مہینے تک وہ خوبصورت گھڑی میرے انکھوں کے سامنے رہی کیونکہ مجھے چندہ دینے کا شوق تو تھا مگر اپنی گھڑی سے بھی مجھے بہت پیار تھا۔
وقت گزرتا گیا اور پھر اعلان ہوا کہ جو لوگ پاکستان یا افغانستان میں جہاد کے خواہشمند ہے وہ تین دن کی جنگی تربیت کے لئے اپنے نام رجسٹرڈ کریں۔ شروع کی ٹرینگ میں پاس ہونے پر ان کو مزید ٹریننگ کے لئے اگلے محازوں پر بھیجا جائے گا۔ ہمارے دل میں بھی ٹریننگ کرنے کی خواہش نے انگڑائی لی مگر گھر والوں نے بہت سختی شروع کی اور ہماری ہر حرکت پر نظر رکھنا شروع کی۔ بڑے بڑے امیر صاحبان جعمے کے خطبوں میں اور سڑک کے کنارے بازاروں میں جہاد کی فضیلت پر خطبے دیتے تھے جن کی وجہ سے بہت سارے نوجوانوں نے ٹریننگ کیمپس کا رخ کیا۔ شاید ہم دونوں کے سکول میں یہ آخری آخری دن تھے اور وہ روز انکھوں میں سُرما لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے صفائی پر خاص توجہ دینے لگے اور پانچ وقت باجماعت نماز کے پابند ہو گئے۔
یہ سکول میں شاید ان کا آخری دن تھا جب اس نے مجھے کہا کہ میری تو نہ سکول میں کوئی عزت ہے نہ گھر میں اور نہ معاشرے میں کیونکہ میں کسی کام کا نہیں البتہ اگر میں کافروں پر خودکش حملہ کردو تو شاید لوگوں کی نظروں میں میں سرخرو ہو جاؤں اور لوگ میری شہادت کو تاقیامت یاد رکھیں۔
اس دن کے بعد وہ کبھی سکول نہیں آئے ان کے والد اور گھر والوں نے ان کو بہت تلاش کیا مگرکچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کدھر چلے گئے۔ کچھ دن بعد ان کے ساتھ ٹریننگ کرنے والے ساتھیوں نے گاؤں آکر بتایا کہ انھوں نے ٹرینگ میں اچھی پوزیشن حاصل کی اور وہ اگلی محاذ پر چلے گئے ہیں۔
زندگی کے دن گزرتے گئے اور کچھ مہینے بعد جہاد سے واپس آئے ایک امیر صاحب نے ان کے کپڑے اور دیگر چیزیں گاؤں کے ایک ہجرے میں ان کے والد اور بھائیوں کے حوالے کیے اور کہا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں، وہ کافروں پر ایک خودکش حملہ کر کے شہادت کا عظیم درجہ پاچکے ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چھ کافروں کو بھی واصل جہنم کرچکے ہیں۔ پورے گاؤں کے لوگ ان کی شہادت پر خوشی سے سرشار تھے مگر وہ دن آج بھی مجھے یاد ہے۔
جب ان کے بوڑھے والد نے ان کے کپڑے چوم کر انکھوں کے ساتھ لگا کر بہت روئے اور اپنے بیٹے کو یاد کرتے رہے مگر ان کی ماں تو پاگل ہوئی تھی اور لوگوں سے یہی کہتی کہ میرا پھول جیسا بیٹا مر نہیں سکتا ضرور ان لوگوں نے ان کو کہیں چھپا دیا ہے تاکہ ہم ان کی تلاش نہ کر سکیں۔
اگلے دن سکول میں ان کی شہادت پر طالب علم اور اساتذہ رشک بھرے الفاظ ادا کررہے تھے اور یہی کہتے رہے کہ دیکھوں ان کو سبق اس لئے یاد نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کے نصیب میں شہادت کا عظیم درجہ لکھا جاچکا تھا اور وہ اب جنت الفردوس میں ہونگے۔
مگر میرے دماغ میں ان کا معصوم چہرہ آج بھی زندہ ہے کیونکہ وہ دل کے بہت اچھے تھے اگر وہ پڑھائی میں اچھے ہوتے تو اپنے خواہش کے مطابق آج وہ ڈاکٹر ہوتے مگر معاشرے کی بے رخیوں، اساتذہ اور کلاس فیلوز کی حقارت بھرے رویوں اور گھر والوں کی تشدد نے ان کو زندگی سے محروم کیا۔
مصنف اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے، اس لیے 'افلاطون خان' کا فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے