Get Alerts

فاٹا میں لاقانانونیت کی انتہا، پاکستانی قانون یہاں لاگو نہیں

فاٹا میں لاقانانونیت کی انتہا، پاکستانی قانون یہاں لاگو نہیں

از امین مشعل



فاٹا کے لئے دنیا سے انوکھا نظام


پوری دنیا میں موجود قوانین کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں پورے ملک میں ایک جیسا قانون لاگو نہ ہو۔ وقت کے ساتھ قانون میں ترامیم کی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کو انصاف مل سکے اور معاشرے میں امن کا قیام ہو۔ لیکن پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام  قبائلی علاقوں میں اب بھی لوگ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ تک رسائی نہیں رکھتے اور 1901 سے لاگو انگریز حکمرانوں کا کالا قانون ایف سی آر ان لوگوں پر مسلط ہے۔ یہاں پر وکیل، دلیل، مقدمہ اور درخواست کی کوئی شق موجود نہیں۔ ظاہری طور پر فاٹا پاکستان کا حصہ ہے لیکن پاکستان کا آئین یہاں پر نافذالعمل نہیں۔




سے اب تک ان ستر سالوں میں 16 دفعہ ایف سی آر  کے خاتمے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں لیکن عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ 70 سال گزرنے کے باوجود فاٹا کے عوام کسی بھی عدالت میں انصاف کے لئے رجوع نہیں کر سکتے۔



ستر سال میں کچھ نہیں بدلا


1973 کے آئین کی شق نمبر 1 کے تحت فاٹا پاکستان کا حصہ تو ہے مگر یہاں پر قانون سازی کے حوالے سے صرف صدر پاکستان اور وفاقی حکومت کو بااختیار بنا دیا گیا ہے۔ وہ جب چاہیں فاٹا میں عمل دخل کر سکتے ہیں۔ 1947 سے اب تک ان ستر سالوں میں 16 دفعہ ایف سی آر  کے خاتمے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں لیکن عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ 70 سال گزرنے کے باوجود فاٹا کے عوام کسی بھی عدالت میں انصاف کے لئے رجوع نہیں کر سکتے۔ حال ہی میں 12 جنوری 2018 کو ایک نوید سنا دی گئی کہ فاٹا کے عوام سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے اہل ہوں گے مگر حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے اور ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔




قومی اسمبلی میں ان پچاس لاکھ قبائلیوں کےلئے صرف 11 ایم این ایز اور سینیٹ میں آٹھ سیٹیں مختص کی گئی ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ فاٹا کے عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں



اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر


فاٹا میں ایف سی آر کے خاتمے کے لئے مقامی لوگوں نے سینکڑوں بار احتجاجی مظاہرے کئے لیکن وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ایف سی آر کے تحت گھر کے ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو سہنا پڑتی ہے۔ فاٹا کو کُل سات ایجسیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق پچاس لاکھ سےزیادہ ہے۔ قومی اسمبلی میں ان پچاس لاکھ قبائلیوں کےلئے صرف 11 ایم این ایز اور سینیٹ میں آٹھ سیٹیں مختص کی گئی ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ فاٹا کے عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں لیکن ہم صرف قانونی جائزہ لے رہے ہیں کہ پچھلے ستر سالوں میں فاٹا کے عوام کے لئے جامع قانون سازی وضع کرنے میں کس حد تک عملی پیش رفت کی گئی ہے۔



خیبر پختونخوا سے انضمام کیوں ضروری؟


فاٹا میں جب بھی ایف سی آر کے خاتمے کی بات شروع ہوئی ہے تو مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں 2016 کے دوران ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد فاٹا کے عوام کی رائے معلوم کرنا تھا۔ اس کمیٹی نے تمام ایجنسیوں کا دورہ کیا اور کئی مہینوں کی محنت کے بعد ایک مفصل رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فاٹا کے عوام صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام چاہتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فاٹا کا تقریباً ستر فیصد لین دین خیبرپختونخوا کے ساتھ ہے۔



مولانا کی خوشنودی اور سابق وزیر اعظم



کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں چھ نکات پر مشتمل تفصیل کے ساتھ تجاویز بیان کی گئی تھیں۔ ان میں (1) فاٹا میں بحالی اور دوبارہ تعمیر (2)  سماجی و اقتصادی ترقی (3) بلدیاتی نظام (4) قانونی اصلاحات (5) لیویز فورس کی صلاحیت کو بہتر بنانا اور (6) لینڈ سیٹلمنٹ شامل ہیں۔ تجاویز میں ایف سی آر کو ختم کر کے رواج ایکٹ میں تبدیل کرنا شامل ہے۔ 2017 میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل بھاری اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی سے پاس ہوا، اور فاٹا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایسی خوشی جیسے فاٹا کے عوام کو آزادی ملی ہو، لیکن عین اسی وقت مولانا فضل الرحمان نے فاٹا انضمام کی مخالفت کی اور یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ اب بھی التوا کا شکار ہے۔ حیران کن بات یہ کہ کابینہ کی منظوری کے باوجود اس رپورٹ کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے اور صرف مولانا کو خوش کرنے کے لئے سابق وزیر اعظم نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے  کی بات ٹال دی۔



فاٹا کی عوام کا سیاسی اتحاد قامی دھارے میں شامل ہونے کا لئے لازم


اس مسئلے کے حل کے لئے سینٹ میں اس بل پربحث ہوگی تو ممکنہ طور پر ترامیم ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب فاٹا کے عوام کو ایک ہونا پڑے گا اور ٖفاٹا سٹوڈنٹس سوسائیٹیز کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کو بھی حکومت پر پریشر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ فاٹا کے عوام کو ایف سی آر سے چھٹکارا ملے اور فاٹا کے عوام کو بھی یہ احساس ہو کہ وہ بھی پاکستانی ہیں۔