"میں ایک سال سے پلاٹ کے ایک کیس میں مسلسل پیشیاں بھگت رہا ہوں، پیسہ پانی کی طرح خرچ ہو رہا ہے لیکن امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی کہ کب اس کیس سے میری خلاصی گی۔ اس سے تو جرگہ سسٹم اچھا تھا، پیسہ اس میں بھی لگتا تھا لیکن کم ازکم انصاف تو فوری مل جاتا تھا۔
ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (FCR) کے خاتمے سے سابق قبائلی علاقوں میں عوام کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ الٹا اتنے مزید مسائل پیدا ہو گئے کہ اب ان کا کسی کے پاس کوئی علاج نظر نہیں آتا۔
قبائلی عوام کے ساتھ حکومت کی طرف سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ ایفا نہیں ہوئے لہٰذا اب لوگ بہت زیادہ مایوس ہو چکے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا، اس سے بہتر تو پرانا نظام تھا، اگرچہ اس میں کچھ نقائص ضرور تھے لیکن دوسری طرف عوام کو سستا اور فوری انصاف تو مل جاتا تھا۔"
ان خیالات کا اظہار قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی صاحبزادہ بہاؤالدین نے نیا دور میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے ساتھ قبائلی عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، حکومت کی طرف سے بیانیہ کچھ اس طرح کا بنایا گیا تھا کہ جیسے انضمام کے ساتھ ہی ضم شدہ اضلاع میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی لیکن افسوس کہ وہ سب کچھ میٹھا دھوکہ اور فریب تھا۔
صاحبزادہ بہاؤالدین گذشتہ قریباً پچیس سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ سابقہ باجوڑ ایجنسی میں جب شدت پسندی میں اضافہ ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ہزاروں لوگوں کی طرح بہاؤالدین نے بھی اہل خانہ سمیت ہجرت کر کے پشاور میں پناہ لے لی جہاں وہ کئی سال تک مقیم رہے۔ تاہم، امن کی بحالی اور پشاور میں کوئی باقاعدہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے اب وہ واپس اپنے علاقے منتقل ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں ان کی زمین کی ملکیت کا ایک مقدمہ ایک سال سے زیر سماعت ہے لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی اور الٹا ان کو بڑا مالی نقصان ہو رہا ہے۔
بہاؤالدین کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں زمینوں کا کسی قسم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ لوگوں نے سالہا سال کے تنازعات کو مقامی ملی عدالتوں کے سامنے لانے شروع کیا ہے جس سے علاقائی مسائل اور بھی بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ عدالتی نظام کے تحت ایک مقررہ مدت کے اندر تنازعات خاص کر سول نوعیت کے مسائل حل کرنے کے لئے قبائل کو ریلیف دینے کی خاطر ایک میکنزم طے کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ گراؤنڈ پر نظر نہیں آتا جس سے ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آ رہی ہے۔
"انضمام سے قبل قبائلی ملکانان پر انگلیاں اٹھائی جاتی تھیں کہ یہ جرگوں میں پیسے لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب بغیر پیسوں کے مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں؟ معمولی نوعیت کے سول کیسز میں وکلا ایک سے پانچ لاکھ روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون جھوٹا اور کون سچا ہے۔"
صاحبزادہ بہاؤالدین نے سرتاج عزیز فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے ضمن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں بیشتر قبائلی عوام قبائلی علاقوں کو اضلاع میں تبدیل کرنے پر آمادہ تھے لیکن بدقسمتی سے اس طرح عمل نہیں کیا گیا جس طرح ضرورت تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد دہائیوں تک ملک کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقوں کو برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے کالے قوانین FCR کے تحت 'گریٹ گیمز' کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان نیم خودمختار قبائلی ایجنسیوں کو کبھی روس کے خلاف جنگ میں کام میں لایا گیا تو کبھی امریکی سربراہی میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا حصہ بنایا گیا۔ تاہم، دسمبر 2014 میں پشاورمیں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے بڑے دہشت گرد حملے نے اگر ایک طرف پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تو دوسری طرف قبائلی ایجنسیوں کی تقدیر بدلنے کا ایک موقع بھی فراہم کیا۔
آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد سیاسی اور فوجی قیادت نے سر جوڑ کر دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے 20 نکات پر مشتمل ایک مربوط منصوبہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے دیا جس کے تحت فیصلہ ہوا کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحاتی عمل شروع کر کے اسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔
اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے قبائلی علاقوں کے دورے کر کے وہاں انضمام کے ضمن میں قبائل کی رائے معلوم کی۔
مئی 2018 میں 25ویں آئینی ترمیم کے تحت بالآخر فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا گیا۔ ملک کی قریب تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے کھل کر حمایت کی۔ البتہ مذہبی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور محمود خان اچکزئی کی قوم پرست جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے فاٹا انضمام کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ دونوں جماعتوں نے پارلمینٹ کے فلور پر آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ دونوں مخالف جماعتوں نے فاٹا کی مخصوص حیثیت ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
خیبر پختونحوا سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے ممبر قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور کا کہنا ہے کہ قبائلی ایجنسیوں میں قریب سو سال سے مقامی قبائلی نظام رائج تھا جس کے تحت نہ صرف قبائل آزاد اور خودمختار تھے بلکہ اسی نظام کو برطانوی راج نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی نظام میں تمام فیصلے مقامی رواج کے مطابق ہوتے تھے جس سے عوام کو بروقت انصاف ملتا تھا اور فیصلوں کو فریقین خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے تھے۔
ان کے بقول FCR کے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہوا کہ جی اس میں علاقائی ذمہ داری کے تحت پورا قبیلہ گرفتار ہو سکتا ہے، یہ قانون ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ FCR کو نوکر شاہی نے بدنام کر رکھا تھا، ظالم افسران اپنے اختیارات سے تجاوز کیا کرتے تھے اور الزام قانون پر آتا تھا۔
یاد رہے کہ FCR کو کالا قانون کہا جاتا تھا۔ سابق قبائلی علاقوں میں سارا نظام اس کے تحت چلایا جاتا تھا اور سزا یافتہ ملزمان کو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اس قانون کی ایک شق کے مطابق قبائلی ذمہ داری کے تحت پورے قبیلے کو کئی سال تک پابند سلاسل کیا جا سکتا تھا۔
مفتی عبد الشکور کے مطابق 'ہم یہ نہیں چاہتے کہ فاٹا کو لازماً الگ صوبہ ہی بنایا جائے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قبائلی عوام سے پوچھا جائے، ان پر کوئی اور نظام مسلط نہیں کرنا چاہیے جیسے سرتاج عزیز کمیٹی نے کیا۔ قبائل کو ان کی روایات کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہیے۔'
ان سے جب پوچھا گیا کہ فاٹا انضمام ایک آئینی ترمیم کے ذریعے سے ہوا جب کہ ان کی جماعت کے پاس پارلمینٹ میں مطلوبہ اکثریت نہیں کہ اس کو دوبارہ سے واپس کیا جائے لہٰذا ایسے میں اس کے خلاف ان کا احتجاج بے معنی نہیں لگتا؟ تو اس پر ایم این اے نے کہا کہ 'ہم نے تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ ضروری نہیں کہ کل کو یہ کامیاب ہو جائے۔ ہماری جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک قبائل کو ان کی مرضی کے مطابق نظام نہیں دیا جاتا۔'
مفتی عبد الشکور نے فاٹا انضمام بل کی پارلمینٹ سے منظوری سے قبل حکومت کی طرف سے سیاسی جماعتوں سے ہونے والی مشاورت کی کہانی بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس معاملے پر ان کی اور مولانا فضل الرحمان کی اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ان کے چیمبر میں ایک طویل نشست ہوئی تھی جس میں وزیر اعظم نے ان کی پارٹی کے مؤقف کو درست تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم، جب شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ پھر JUI کی تجاویز پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا تو اس پر وزیر اعظم نے یہ کہہ کر وضاحت کی تھی کہ وہ 'راولپنڈی' سے مجبور ہیں کیونکہ بقول ان کے 'پنڈی' کی قیادت فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ بعد میں مولانا فضل الرحمان کی درخواست پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے ISI سربراہ جنرل فیض حمید کو ملاقات کی خصوصی دعوت دی تاکہ فاٹا انضمام پر دونوں کا مؤقف سنا جائے۔
مفتی عبدالشکور کے بقول 'یہ ملاقات قریب تین گھنٹے جاری رہی۔ مولانا فضل الرحمان نے فوجی قیادت کے سامنے انضمام کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے۔ میں آرمی چیف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے اس وقت ہمیں بہت زیادہ وقت دیا اور ہمارے مؤقف کو بڑے غور اور ہمدردی سے سنا لیکن آرمی چیف نے بھی آخر میں یہی بات کی کہ ہم مجبور ہیں۔'
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ JUI سربراہ اپنے جلسوں میں اس بات کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں کہ فاٹا انضمام امریکہ کے کہنے پر ہوا۔ مگر انہوں نے اب تک اس بات کی مکمل وضاحت نہیں کی۔
فاٹا انضمام کے ساتھ ہی اس وقت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سات ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لئے ہر سال سو ارب روپے دیے جائیں گے جس سے شورش زدہ علاقوں میں اہم سیکٹرز کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا۔ اس دوران جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے بھی قبائلی اضلاع کو سالانہ سو ارب روپے دینے کا اعلان دہرایا اور وفاقی کابینہ کے ایک جلاس میں فیصلہ کیا کہ یہ رقم NFC ایوارڈ سے دی جائے گی جس میں تین فیصد حصہ صوبوں سے لیا جائے گا۔ مگر تین سال گزر جانے کے باوجود یہ معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اگرچہ 2021-22 بجٹ میں کچھ رقم جاری کی گئی ہے لیکن مطلوبہ ہدف پورا نہیں کیا جا سکا جس سے سالہا سال سے پسماندہ رہنے والے اضلاع میں ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔
قبائلی علاقوں میں عوام کا سب سے بڑا مطالبہ FCR قوانین کا خاتمہ تھا کیونکہ اس قانون کی وجہ سے قبائل کی آزادی سلب کر لی گئی تھی جب کہ اس قانون کے خلاف اپیل کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ انضمام کے بعد اس قانون کا خاتمہ تو ہو گیا اور قبائل کو پہلی مرتبہ اپیل، وکیل اور دلیل کا حق بھی مل گیا۔ لیکن دوسری طرف انہیں جرگے جیسے فوری انصاف کی فراہمی کا نظام نہیں مل سکا جس سے ضم شدہ اضلاع میں تنازعات کے انبار بڑھ رہے ہیں۔ حکومت نے جرگہ سسٹم کے متبادل کے طورپر ایک نئے نظام آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن (ADR) یعنی تنازعات کے حال کا متبادل نظام پر کام شروع کر دیا ہے لیکن حکومتی عدم توجہی اور فنڈز کی کمی کے باعث ان منصوبوں میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضم شدہ اضلاع میں حکومت کی عدم سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ جیسی اہم ضرورت کا بدستور فقدان ہے جس کی فراہمی کے لئے قبائلی طلبہ مختلف علاقوں میں مسلسل احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں تعلیم کی کمی ہر دور میں ہمیشہ سے رہی ہے۔ توقع تھی کہ PTI کے منشور کے مطابق انضمام کے بعد اس اہم اور بنیادی ضرورت کے حصول کے لئے ایمرجنسی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا جائے گا لیکن حالیہ سرکاری رپورٹس کے مطابق یہ شعبہ بدستور نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے اپنے اداروں کے حالیہ سروے کے مطابق ضم شدہ اضلاع میں اس وقت مجموعی طورپر 51 فیصد افراد ناخواندہ ہیں۔
فاٹا انضمام کے تین سال کے بعد سیاسی سطح پر اگرکوئی بڑی پیش رفت ہوئی ہے تو وہ ضم شدہ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد تھا۔ جولائی 2019 میں ضم شدہ اضلاع کی 16 نشستوں پر انتخابات ہوئے جس کے ساتھ ہی پہلی مرتبہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہو گئی۔
واضح رہے کہ قبائلی علاقوں میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس سے پہلے قبائلی عوام کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنے نمائندوں کو بھیج سکتے تھے۔ تاہم، فاٹا کی مخصوص حیثیت کے باعث ان ممبران کو پارلمینٹ میں قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں تھا بلکہ سابق فاٹا میں کوئی بھی قانون صدر مملکت کے حکم سے ہی جاری کیا جا سکتا تھا۔
شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ پشاور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ قبائلی عوام کو پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی کا حق حاصل ہو گیا ہے لیکن اس کے علاوہ وہاں کوئی بڑا اور قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔
'قبائلی عوام کہتے ہیں کہ انضمام کے نام پر ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ ان کو جو سبز باغ دکھائے گئے تھے وہ سب جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے۔ صرف FCR کا خاتمہ مسائل کا حل نہیں۔ انٹرنیٹ جیسی اس دور کی اہم ضرورت کے لئے طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ وہاں پہلے بھی محرمیاں تھیں اور اگر انضمام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ ان علاقوں کے عوام کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی اور خطرناک بھی ہے کیونکہ اگر حکومت انٹرنیٹ جیسی اہم ضرورت فراہم نہیں کر سکتی تو ہم فاٹا نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟'
قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ضم شدہ اضلاع میں کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال بدستور عروج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر اضلاع میں اہم سرکاری محکموں میں بدعنوان افسران تعینات کیے گئے ہیں جن پر ماضی میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ "سابق فاٹا میں مختلف محکموں میں پوسٹنگ ٹرانسفرز میں جس طرح پہلے پیسے لیے جاتے تھے اب بھی لیے جا رہے ہیں بلکہ اس میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔ مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود نہیں جس سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔"
ان کے مطابق سرکاری سکیمیں آج بھی پہلے کی طرح بک رہی ہیں، کمیشن کا بازار گرم ہے اور اس کام میں عوامی نمائندے بھی ملوث ہیں۔
فاٹا میں عام طورپر ماضی میں ان حکومتوں کے دور میں زیادہ کام ہوتے رہے ہیں جب پارٹی کی مرکز اور صوبے میں بیک وقت حکومت ہوا کرتی تھی۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی پہلی مرتبہ مرکز میں حکومت قائم ہوئی جب کہ خیبر پختونخوا میں بھی ان کو دوسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ ملا تھا جس سے ایک امید پیدا ہوئی کہ اس حکومت میں ضم شدہ اضلاع میں کام کی رفتار تیز ہوگی لیکن ایسا نہیں ہو سکا، جس سے اب عوام میں نئے نظام کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
جمعیت علماء اسلام تو ابتدا ہی سے فاٹا انضمام کی محالف تھی لیکن اب اس میں کچھ مقامی تنظمیں بھی شامل ہو گئی ہیں جس سے انضمام مخالفین کا پلڑا رفتہ رفتہ بھاری ہو رہا ہے۔
خیبر قومی جرگہ ضلع خیبر کی ایک مقامی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم حال ہی میں فاٹا انضمام کے خلاف وجود میں آئی ہے۔ ابتدا میں یہ تنظیم صرف ضلع خیبر تک محدود تھی پر اب اس کا دائرہ دیگر قبائلی اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے اور تنظیم کا نام بھی تبدیل کر کے فاٹا قومی جرگہ رکھ دیا گیا ہے جس میں اب تمام ضم شدہ اضلاع کی نمائندگی شامل ہے۔ تنظیم کے سربراہ بسمہ اللہ خان بنیادی طورپر ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔
انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ فاٹا انضمام غیر قانونی طریقہ سے کیا گیا ہے کیونکہ آئین کی جس شق کے تحت فاٹا کی حیثیت تبدیلی کی گئی اس کے لئے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا ہے بلکہ غیر قانونی یا غیر فطری طریقے سے نیا نظام مسلط کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا پاکستان کی ایک اکائی تھی اور اتنی بڑی آبادی کی حیثیت کی تبدیلی کے لئے ضروری تھا کہ ایک ریفرنڈم کروایا جاتا جیسے آئین میں بھی ہے لیکن اس وقت کی حکومت نے قبائل کی رائے کو بلڈوز کیا اور جلد بازی سے کام لیا گیا۔
ان کے مطابق 'ایک تو سرتاج عزیز کمیٹی میں کوئی قبائلی رکن شامل نہیں تھا۔ جب کمیٹی کے اراکین کو ہی زمینی حقائق کا عمل نہ ہو تو وہ کیونکر صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں؟ انضمام تو کمیٹی کے ایجنڈے پر تھا ہی نہیں لیکن آخر میں حکومت نے انضمام کے حق میں فیصلہ کر دیا اور یوں لوگوں سے پوچھے بغیر ان کی مرضی کے بغیر آئینی ترمیم کی گئی۔'
بسمہ اللہ نے مزید بتایا کہ ان کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں فاٹا انضمام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک 25ویں آئینی ترمیم کو واپس کر کے قبائلی عوام کی مرضی کے مطابق ان کو ان کا حق نہیں دیا جاتا۔
بسمہ اللہ خان کے بقول ’فاٹا انضمام کے وقت حکومت کی جانب سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔ لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کیسے حل کرائیں۔ NFC ایوارڈ میں تین فیصد فنڈز دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ 25 ہزار خاصہ دار اور لیوی فورس کو بھرتی کیا جانا تھا، قبائل کو مزید نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن بھرتی کیا ہونی تھی پوری فورس ہی ختم کر دی گئی۔ زمینوں کے تنازعات بڑھ رہے ہیں جس سے کافی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ دس سال تک ضم شدہ اضلاع کو ٹیکس فری زون قرار دینے اور طلبہ کے لئے پروفیشنل تعلیمی اداروں میں کوٹہ بڑھانے کے وعدوں پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ انٹرنیٹ جیسی سہولت نہیں تو ارباب اختیار سے اور کیا توقع کی جائے؟'
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔