پی ٹی وی کا سنہرا دور کیسے واپس لایا جاسکتا ہے؟

پی ٹی وی کا سنہرا دور کیسے واپس لایا جاسکتا ہے؟
نامور قانون دان ادیب اور ٹی وی کمپیئر نعیم بحاری کے پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین نامزد ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا پاکستان ٹیلی ویژن کا سنہرا دور واپس آ سکتا ہے کہ نہیں ،اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نعیم بخاری پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہرے دور کا حصہ رہے ہیں انکی آنکھوں کے سامنے پی ٹی وی عروج سے زوال کی طرف گیا ہے ،انکی بطور چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن کس حد سود مند ثابت ہو سکتی اس کا جواب دہنا فی الحال قبل از وقت ہوگا۔

پی ٹی وی کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک پی ٹی وی نیوز ، پی ٹی وی ہوم ، اور پی ٹی وی سپورٹس ،جہاں تک پی ٹی وی نیوز کا تعلق ہے وہ ہمشہ ریاستی پالیسی کے تحت چلتا ہے آج کل نعیم بخاری کے اس بیان کا بہت چرچا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی نیوز صرف حکومت کے لئے ہے حزب اختلاف کے لئے نہیں ایک حلقہ انکے اس بیان پر بہت زیادہ تنقید کر رہا ہے ،مگر یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ پہلا چیرمین ہے جو سچ بول رہا نعیم بحاری سے پہلے جنتے بھی چئیرمین آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہی ٹی وی پر حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو برابر کا وقت ملے گا مگر ایسا نہیں ہوا لہذا یہ بحث ہی فضول ہے نعیم بخاری نے سچ بول دیا پی ٹی وی ہمیشہ سے ہی سرکاری بھونپو رہا اور آئندہ بھی رہے گا لہذا اس بحث کو ادھر ہی چھوڑ کر پی ٹی ہوم کی طرف چلتے ہیں جہاں ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔

جب پی ٹی وی کا عروج تھا تو کراچی سے حسنیہ معین ،فاطہ ثریا بجیا، نور الہدیٰ شاہ،انور مقصود،عبدل قادر جونجو، جسے ڈرامہ نگار شہزاد خلیل، محسن علی ،شعب منصور جسے ڈائریکٹر لاھور سے اشفاق احمد ،یونس جاوید،بانو قدسیہ۔امجد اسلام امجد جسے ڈرامہ نگار ،نصرت ٹھاکر ،یاور حیات،ایوب خاور جسے ہدایت کار ،پشاور سے ڈاکٹر ڈینس ایزک کوئٹہ سے اوریا مقبول جان ،سجاد احمد ،اسلام آباد سے سید شاکر عزیز فاروق قصیر جسے ڈائریکٹرز اور ڈرامہ نگار ہوتے تھے پی ٹی وی میں ڈاہکڑر کو ہمشہ پروڈیوسر لکھا گیا ہے ۔

سب بڑا چیلنج جو نعیم بخاری کو درپیش ہے پی ٹی وی کا ڈرامہ بحال کرنا ہے پچھلے طویل عرصے سے پی ٹی وی کے پانچوں مراکز نے اپنا ڈرامہ بنانا بند کر دیا ہے اب پی ٹی وی پر جو بھی ڈرامہ نشر ہوتا ہے وہ نجی شعبے میں تیار کیا جاتا ہے اس کا میعار بہت سطحی ہوتا ہے آخری معیاری ڈرامہ جو پی ٹی وی سے نشر ہوا وہ رنگیل پور تھا جس کے ڈائریکٹر عثمان پیر زادہ تھے جو اس کام کے استاد ہیں پی ٹی وی کے سنہرے دور کی بحالی کے لیے تمام مراکز جس میں اب ملتان بھی شامل ہے ان کو اپنے ڈرامے خود بنانے کی ضرورت ہے۔

پی ٹی وی ایوارڈز کو بحال کرنا بہت ضروری ہے جب مقابلے کی فضا بنے گی تب میعاری کام ہو گا پی ٹی وی کی اولین ترجیح اپنی ڈرامہ پروڈکشن ہونی چاہیے ۔یہ غلط بات ہے کہ لوگ پی ٹی وی چینل نہیں دیکھنا چاہتے اس کا سب سے بڑا ثبوت ترک ڈرامے ارظغرل غازی کی بے مثال کامیابی ہے ڈرامے کے دوران منے والے اشتہارات سے پی ٹی وی اب تک کڑروں روپے کما چکا ہے اگر آپ میعاری ڈرامے بنائیں گے تو لوگ دیکھے گے آپ کے پاس معیاری ڈرامہ نگاروں کی کمی نہیں ہے صرف جدید تکنیک سیکھنے کی ضرورت ہے جو آپ ترکی اور بھارت سے سیکھ سکتے ہیں ان دونوں ممالک میں ڈرامہ مکینک کا کام جدید تکنیک سے ہو رہا ہے اسی لیے ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

ہمارے پاس اس وقت خلیل الرحمٰن قمر جسا بڑا ڈراما نگار موجود ہے جس کے ڈرامے،میرے پاس تم ہو نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے اور اس ڈرامے کی آخری دو اقساط سنیما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی گئی ،لہذا نئے چیرمین نعیم بخاری کو ان نکات پر کام کرنا چاہیئے ، پی ٹی وی کے سنہرے دور کی بحالی اس کے ڈراموں سے مشروط ہے ،جہاں تک پی ٹی وی سپورٹس کی بات ہے تو کماؤ پوت ہے پہلے ورلڈ کپ پھر پی ایس ایل اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہر دورے کے رائٹس اسکے پاس ہیں اب تو ڈومیسٹک کرکٹ بھی دکھائی جا رہی ہے لہزا سارا فوکس چئیرمین صاحب کو پی ٹی وی ہوم پر کرنا ہو گا اور ڈرامے بہتر کرنے ہوں گے یہی ایک طریقہ ہے پاکستان ٹیلی ویژن کی بحالی کا اور کچھ نہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔