کورونا وائرس اور ہمارا بہترین ملکی مفاد

کورونا وائرس اور ہمارا بہترین ملکی مفاد
چین کے ووہان شہر میں کورونا وائرس کی صورتحال دن بدن بگڑتی چلی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ووہان شہر بیابان ہو چکا ہے بلکہ صحت کے عالمی ادارے نے پوری دنیا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ سرحدوں کو بند کر دیں، چین کا ساتھ پروازوں کو معطل کر دیں اور چین سے آنے والے مسافروں کی اسکرینگ کریں۔ اس ہنگامی صورتحال کا اعلان امریکا میں اس وائرس سے متاثر ایک ایسے کیس کے سامنے آنے کے بعد کیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔

یہ صورتحال پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ تھی، سو عالمی ادارہ صحت نے پوری دنیا کو الرٹ کیا کہ جاگو اور ہوش کے ناخن لو۔

چین کی حکومت ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنی آبادی اور وہاں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ دس دن کی قلیل مدت میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال تیاری کے آخری مرحلے پر ہے اور شیڈول کے مطابق تین فروری کو اسے صرف کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ یہ ہسپتال تعمیر کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کرے گا اور یہ تاریخ صرف چین ہی رقم کر سکتا ہے کیوں کہ چین ایک قوم کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ ایک ہجوم پر مشتمل ایک اجتماع۔

یورپ، امریکہ کینیڈا، افریقہ مشرق وسطی میں اب تک درجنوں کیس سامنے آ چُکے ہیں تاہم اب تک تمام تر تحقیق کے باوجود اسکی وجوہات تک نہیں پہنچا جاُ سکا۔ ہر ملک انتہائی سنجیدگی سے اس بیماری سے نمٹنے کی جستجو میں ہے۔

پاکستان جو چین کی سرحد کے ساتھ ہے، یہاں سی پیک کے منصوبے پر اور مختلف دوسرے منصوبے پر تقریباً ساٹھ ہزار چینی کام کر رہے ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں، پاکستان کے اپنے ہزاروں لوگ چین اور پاکستان کے درمیان سفر کرتے ہیں اور ووہان میں پھنسے صرف طلبہ کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کسی بھی ایسی ہنگامی صورتحال کے لیے سنجیدہ ہیں یا صرف ہماری وزارت صحت، وزارت خارجہ اور ہوائی اڈوں پر ہنگامی اقدامات کر لیے گئے ہیں؟ اسکا جواب اگر سنجیدگی سے تلاش کیا جائے تو جواب نہ میں ملے گا۔

مجھے نیا دور کے لیے وڈیو بلاگ کرنا تھا تو ای میل کے ذریعے وزارت خارجہ اور بیجنگ میں پاکستان کے سفارتخانہ کو کچھ سوالات بھیجے جنکا براہ راست تعلق وزارت خارجہ یا سفارتخانے سے تھا۔ سوالات تھے کہ اب تک چین میں پھنسے کتنے افراد اس وائرس سے متا ثر ہوئے۔ پاکستان میں کتنے چینی کام کرتے ہیں؟ اور چین کے کتنے باشندے چین کے نئے سال کی تقریبات منانے اپنے وطن گئے؟ چھبیس گھنٹوں کے بعد بیجنگ سے پاکستانی سفارتخانے سے جواب موصول ہوا کہ “ سر یہ معلومات دفتر خارجہ کے ترجمان فراہم کریں گے” اس وقت تک دفتر خارجہ کی ترجمان اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہہ چکی تھیں کہ اب تک دنیا کے کسی ملک نے اپنے باشندوں کو چین سے نہیں نکالا، حالانکہ اس وقت تک جاپان اور امریکہ اپنے شہریوں کو ہنگامی اقدام کر کے چین سے نکال کر اپنے اپنے ملکوں کو پہنچا چکے تھے۔ اسی دوران مجھے دفتر خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے فون آیا کہ کو سوالات آپ نے بھیجے ہیں انکا تعلق دفتر خارجہ سے نہیں یہ معلومات وزارت صحت سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ میں تڑپ کر کہا کہ بھائی آپ ذرا سوالات دوبارہ پڑھیے تو شاید آپکو سمجھ میں اجائے کہ ان سوالات کا براہ راست تعلق وزارت خارجہ سے ہے اور ویسے بھی اگر دو ملکوں کا معاملہ ہو تو اسکے لیے دفتر خارجہ ہی معلومات فراہم کرتا ہے کیوں کہ ملک کے تمام سفارتخانے اور ہائی کمیشن وزارت خارجہ کے تحت ہوتے ہیں اور وزارت خارجہ سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ تو صاحبو یہ ہے وزارت خارجہ کی سنجیدگی کی صورتحال اور انکی اپ ڈیٹ معلومات۔

 

جمعرات کو جب ہمارے وزیر اعظم کے صحت کے بارے میں خصوصی معاون ڈاکٹر ظفر مرزا نے وزارت خارجہ کے بابوؤں کے ہمراہ اس وقت ایک نیوز کانفرنس جڑ ڈالی جب عالمی ادراہ صحت کا ایک ہنگامی اجلاس اس وائرس کے حوالے سے جاری تھا اور اس اجلاس کے بعد ہی ادارے نے پوری دنیا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا، لیکن معاون خصوصی صاحب نے اجلاس کے نتائج کا انتظار کیے بغیر نیوز کانفرنس کر ڈالی اور اس میں یہ اعلان کر دیا کہ ہم بہترین قومی مفاد میں ووہان میں پھنسے طلبہ کو وہاں سے نہیں نکالیں گے، کیوں کہ ہم چین کے ساتھ اس مشکل گھڑی میں کھڑے ہیں۔

اسی پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال پر موصوف نے پنجابی میں مسخرہ پن اختیار کر کے کہا کہ “اچی آواز اچ سوال کر کے تسی تے میرا ترا ای کڈھ سٹیاُ” یعنی مجھ سے اونچی آواز میں سوال کر کے مجھے ڈرا دیا۔

مرزا صاحب اونچی آواز میں سوال سے نہ ڈریں بلکہ اس صورتحال سے ڈریں جو خدا نہ کرے اس وائرس سے پیدا ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر ظفر نے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ کی ویب سائٹ پر مکمل معلومات موجود ہیں اور ہم کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے فوری طور پر ویب سائٹ دیکھی اور پہلا صفحہ جسے ہوم پیج کہا جاتا ہے اس پر اب تک اگر کورونا وائرس کا نام بھی اگر نظر آ جائے تو ڈاکٹر ظفر قابل ستائش ہیں۔ پورا کا پورا پہلا پیج ڈاکٹر صاحب یا اعلی حکام کی تصاویر اور انکی پبلک ریلیشن کی پریس نوٹس سے بھرا پڑا ہے۔ خاصی تگ و دو کے بعد ویب سائٹ پر ایک چھوٹا سا بٹن latest news  کا ملا جس میں اس وبائی مرض کے بارے میں کچھ معلومات تھیں۔

حلانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام معلومات پہلے صفحہ پر واضح نظر آنی چاہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا دعویٰ ہے کہ تمام ہوائی آڈوں پر ہنگامی صورتحال کے لئے انتظامات کر لئے گئے ہیں لیکن جن میں نے پمز ہسپتال، پولی کلینک کو چیک کیا اور معلوم کیا کپ کوئی وارڈ کرونا وائرس کے لئے مخصوص ہوا، تو جواب نفی میں ملا۔ چین سے پرواز کی معطلی کا اعلان ضرور کر دیا گیا لیکن یہ ہنگامی اقدام ہر صورت کیا جاتا ہے کہ کسی بھی متاثرہ شخص کو ہوائی اڈے کے قریب ہی مخصوص مدت کے لئے الگ کر لیا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں بھارت میں طاعون کی بیماری پھیل گئی اور اس زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیاں باقاعدہ لاہور دہلی اور کراچی ممبئی کے درمیان پروازیں ہوا کرتی تھیں۔ ان پرواز وں کے مسافروں کو نہ صرف الگ ٹرمینل پر اتارا جاتا تھا بلکہ۔ ڈالٹر کی موجودگی میں مسافروں کی اسکرینگ ہوتی تھی جبکہ ہوائی اڈے کے ساتھ ہی Quarantine قائم کر دیا گیا تھا تاکہ متاثرہ فرد کو وہیں علاج کے لئے الگ کر دیا جائے۔

چین میں متاثرین کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے چار طلبا بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان طلبہ یا متاثرہ افراد کو وہاں سے نکالنے کا تعلق قومی مفاد سے کیا ہے، کیا وہ بچے اس ملک کے بچے نہیں؟ کیا وہ ریاست اور ریاستی اداروں کی طرف نہیں دیکھ رہے اور امداد کے مستحق نہیں اور ان بچوں کو اگر ملک واپس نہیں لایا جا سکتا تو کیا انہیں چین میں ہی کسی محفوظ مقام پر منتقل نہں کیا جا سکتا، حالانکہ عالمی ادارہ صحت واضع طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ چین اور دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ نہ سفری پابندیاں لگا رہا ہے اور نہ ہی تجارت پر کسی قسم کی پابندی ہے۔ چین میں پھنسے ان طلبا کو با آسانی وطن واپس لا کر اسکرینگ سے گزار کر اپنے والدین سے اور خاندانوں سے ملایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر ایک ٹاسک فورس بنا دی ہے جس میں طبی ماہرین سے لیکر سیکیورٹی اور ہوا بازی کے ماہرین بھی شامل ہیں اور رات وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرکے واضع کر ُدیا گیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان کسی بھی قسم کی سفری پابندیاں نہیں۔ اسکے علاوہ امریکہ کے سات ہوائی اڈوں پر اسکرینگ کے علاوہ Quarantine کی سہولت قائم کر دی گئی ہیں۔ ایسا ہی پاکستان اپنے گہرے دوست ملک سے آنے والے پاکستانیوں اور چینی مسافروں کے لئے کر سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکام نے ہر معاملے کی طرح آسان راستہ ڈھونڈا کے دونوں ملکوں کے درمیان سفری رابطوں کو ہی معطل کر دو کیوں کہ نہ رہے گا بانس تو نہ بجے گی بانسری۔ نہ چین سے مسافر آئیں گے نہ کرنا پڑے گا کام، اور اس وقت تک تک ایک دوسرے پر ذمہ داریاں شفٹ کر کے کام چلایا جائے۔  معاون خصوصی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں ایسے والدین نے رابطہ کیا جو کہتے ہیں کہ انکے بچوں کو ووہان سے نہ نکالیں جبکہ بچے سوشل میڈیا پر مدد مانگتے طلبہ کی وڈیوز وائرل ہیں۔ طلبا کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہاں صورتحال بہت خراب ہے اور ہمارہ سفارتخانہ سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہا۔  صورتحال بہت سنجیدہ ہے اور فیصلوں کا تقاضا کر رہی ہے، کیوں کہ چین کے وہ باشندے جو چھٹیاں گزارنے چین گئے ہیں وہ اب واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ آخری اطلاعات تک پاکستان کو ٹیسٹ کرنے والی جاپان سے کٹس ہی نہیں مل سکیں تو معاون خصوصی کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کیا خاک ہے؟

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔