بے نظیر بھٹو سے نفرت یا انسانیت سے انتقام؟

بے نظیر بھٹو سے نفرت یا انسانیت سے انتقام؟
سونامی سرکار نے ملک میں واحد فلاحی ادارے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو عملی طور ختم کر دیا ہے۔ عالمی ساکھ رکھنے والا یہ ادارہ عالمی ڈونر اداروں کے تعاون سے غریب اور بے سہارا خواتین کی مالی اعانت اور مددگار کے طور پر سرگرم تھا۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت اس کو آٸینی اور قانونی حیثیت دی گٸی۔ یہ صدر آصف علی زرداری کی سوچ تھی جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خواب کی تعبیر تھی۔ بلاشبہ اس پروگرام نے غریب اور بے سہارا خواتین کو بڑی ڈھارس دی جن کو مردوں کے معاشرے میں
بوجھ سمجھا جاتا تھا۔



غریب دوست معاشی ماہر قیصر بنگالی نے صدر آصف علی زرداری کی سوچ کے مطابق اس پروگرام کو عملی شکل دی۔ ابتداٸی طور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں تمام ارکان پارلیمنٹ کی مدد حاصل کی گٸی تاکہ حکومت کو کونے کونے تک رساٸی حاصل ہو سکے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے جتنے فارم پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی قمرالزمان کاٸرہ کو ملے اتنے ہی فارم فاروق لغاری کو بھی دیے گٸے۔ اس سلسلے میں کوٸی امتیاز نہیں برتا گیا۔ مقصد صرف غریب اور بے سہارا خواتین کی مدد تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خزانہ خالی ہے کا نقارہ بجا دیا تھا مگر خدا کی غیبی مدد پر کامل یقین رکھنے والے آصف علی زرداری نیک نیتی سے اس پروگرام
کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جمہوریت کے لٸے جدوجہد اور دہشت گردوں سے دلیرانہ مزاحمت کے پیش نظر عالمی مخیر حضرات نے انسانیت کی فلاح کے لٸے بننے والے ادارے کی دل کھول کر مدد کی جو دراصل محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو نذرانہ عقیدت اور ان کے بے مثال کردار کا اعتراف تھا۔ ساتھ
ساتھ پاکستان بیت المال کو بھی حقیقی معنوں میں فلاحی اداره بنایا گیا۔ ایک جیالا اور محترمہ بینظیر بھٹو کا بھاٸی زمرد خان بیت المال کا سربراه بنا تو اس نے انسانیت کی خدمت کی شاندار مثال قاٸم کی۔

اگر گلگت میں کوٸی مصیبت آتی تو اپنے ذاتی خرچے پر زمرد خان وہاں پہنچتے اور مصیبتوں کے مارے انسانوں کی مالی مدد کرتے۔ غریبوں کے مفت علاج کے لٸے بڑے اسپتالوں میں فارم رکھے تاکہ غریب انسانوں کا بیت المال کے خرچے پر علاج ہو، چاہے دل کا باٸی پاس ہو یا بون میرو، اخراجات بیت المال کرے گا۔ غریبوں کی بچیوں کی شادیوں سے لے کر غیر تعلیم یافتہ ضرورت مندوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے یعنی روزگار کے لٸے 25 ہزار روپے کی مدد کرتے رہے۔ ملک میں جہاں سیلاب کی مصیبت آٸی زمرد خان وہاں پہنچے کیونکہ انہیں صدر آصف علی زرداری کی مدد اور حمایت حاصل تھی۔



اس کو حالات کا جبر ہی کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لوگو سے شہید بینظیر بھٹو کی تصویر ہٹانے کی کوشش کی گٸی۔ اسلام آباد ایٸرپورٹ سے بی بی شہید کا نام مٹایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ آخر شہید بے نظیر بھٹو کے نام سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ اگر بات ہوتی غریبوں کی دستگری کی تو صحت کارڈ سے غریبوں کا مفت علاج تو ہوتا۔ مگر تا حال کسی غریب کے لٸے صحت کارڈ کے سودمند ہونے کی رپورٹ تو سامنے نہیں آٸی۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام تو صرف بیوہ اور غریب خواتین کے لٸے ہے۔ اس کو ختم کرنے کی وجہ شہید بے نظیر بھٹو سے نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ اس نفرت کی بنیاد پر غریب اور مستحق خواتیں سے انتقام لینا کہاں کا انصاف ہے؟