مئی 2018 میں جب نئی دلی میں میری کتاب ’Spy Chronicles‘ لانچ ہوئی تو اس کی اشاعت پر ہونے والے ایک مذاکرے کو خصوصی حیثیت حاصل ہو گئی۔ سٹیج پر ایک سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور بھارت ہی کے ایک سابق نائب صدر حامد انصاری موجود تھے۔ اس موقع پر بات چیت کرنے والوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے علاوہ ریٹائرڈ وزرا، انٹیلیجنس سربراہان اور ایک عدد سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی شامل تھے۔ سکیورٹی حکمتِ عملی کے حوالے سے یہ بھارت کے چند بہترین دماغ تھے اور یہاں اس بات پر اتفاق تھا کہ بھارت کو کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ تاہم، یہ پرامید لمحہ یکایک یہاں اٹھنے والی بے ہنگم آوازوں کے شور میں دب گیا۔ اس شور کی وجوہات مجھے کچھ عرصے بعد سمجھ میں آئیں۔
میں حیران ہوتا تھا کہ GHQ کی طرف سے کروائے گئے پروگرامز میں میری کتاب کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر کیوں پیش کیا جا رہا تھا۔ میرے اوپر قومی راز افشا کرنے جیسے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور اس کے لئے کتاب سے کوئی حوالہ تک پیش نہیں کیا جا رہا تھا۔ بالخصوص، کچھ لوگ میرے پیچھے کیوں پڑے تھے، اس کی کوئی قانونی توجیہ پیش نہیں کی جا رہی تھی۔ لیکن چند ماہ بعد کم از کم ایک وجہ تو واضح ہونا شروع ہو گئی۔ یہ وجہ سپریم کورٹ میں چلنے والا اصغر خان کیس تھا جس میں جنرل اسلم بیگ اور مجھ سمیت کئی لوگ نامزد تھے۔ جب جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے، انہوں نے سپریم کورٹ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ جنرل بیگ اور میرے حوالے سے اس کیس کو GHQ منتقل کر دیا جائے کیونکہ ہم دونوں پاکستانی فوج میں کام کر چکے تھے۔
2018 کے آخر میں دو ماہ تک مجھ پر زور ڈالا گیا کہ اس کیس میں جنرل بیگ کی شمولیت ثابت کروں۔ جو چیزیں پہلے سے ریکارڈ پر موجود تھیں میں نے وہ بتا دیں لیکن کچھ معلومات اس وقت کے لئے روک لیں کہ جب جنرل بیگ کو بھی جرح کے لئے بلایا جائے گا جو کہ دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے میں پہلے جواب دہندہ تھے۔ مگر انہیں بلایا ہی نہیں گیا اور اس کیس پر پچھلے دو سال سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہی کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل بیگ دونوں ایک ہی یونٹ سے تعلق رکھتے تھے، 16 بلوچ۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کے فوراً بعد ہی مجھے جاسوسوں نے تنگ کرنا کیوں شروع کر دیا تھا۔ یہ تو Spy Chronicles کے شائع ہونے سے بھی بہت پہلے کی بات ہے۔ مجھے مختلف ایونٹس میں شرکت کے لئے جانا ہوتا، جن میں ماضی میں ہمیشہ شرکت کیا کرتا تھا، تو مجھے اس کے لئے سکیورٹی کلیئرنس سے انکار کیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ جنرل محمود درانی کو بھی روکا جاتا، گو بعد میں یہ کنفیوژن دور ہو گئی کہ محمود درانی اور اسد درانی دو الگ الگ افراد ہیں۔ پچھلے ہفتے جب ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مجھ پر را کے ساتھ مراسم رکھنے کے الزامات لگائے اور اصغر خان کیس کا بلاوجہ حوالہ دیا، تو مجھے اس پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ وہ اپنی طرح کے دیگر افراد کی طرح حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اور آرمی چیف سے متعلق ایک واقعہ بھی شاید میرے ساتھ ہونے والی زیادتی میں اہم کردار رکھتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت پاکستان کے آرمی چیف تھے جب اسامہ بن لادن کا واقعہ پیش آیا۔ میرے اندازے کے مطابق، جو کہ کچھ میرے ادارے کے حق میں جاتا تھا، یہ آپریشن اندر کی اطلاع کے بغیر ممکن نہیں تھا اور مجھے لگتا تھا کہ پاکستان نے امریکہ سے اس کے بدلے کچھ مراعات بھی حاصل کی ہوں گی۔ جنرل کیانی کو میری یہ رائے بہت ناگوار گزری تھی۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی میرے اندازے کو درست ثابت کرتی تھی کہ ایبٹ آباد میں اُس گھر کو جانے والے تمام راستے امریکی کمانڈوز کے آپریشن سے ایک روز پہلے ہی بند کر دیے گئے تھے۔ بہت سے تفتیش کاروں کا بھی یہی اندازہ تھا۔
میرے سابقہ ادارے میں بہت سے اچھے لوگ بھی یقیناً موجود ہیں جو کہ ان سارے معاملات کو جانتے ہیں اور انہوں نے معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے اپنے اپنے انداز میں کوشش کی ہے۔ لیکن جیسا کہ زیادہ تر ہوتا ہے، سخت گیر مخالفین نے نہ صرف ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنایا ہے بلکہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ راز افشا کرنے کے الزام کے پیچھے کبھی کوئی ثبوت موجود نہیں تھا لیکن ان کے وکلا بار بار اس معاملے کو عدالت میں اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس میرے را سے تعلقات کے بارے میں معمولی سا ثبوت بھی ہوتا، تو یہ کب کی قیامت اٹھا چکے ہوتے۔