مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی موڑ آ گیا۔ عمران خان کو لانے اور پھر رخصت کرنے کے عمل میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا جس کی بدولت اس نے وقتی طور پر سیاست سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کچھ دیر سستانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی سیاسی فضاؤں میں پرواز کرنے والے موسمی پرندے جن کو چن چن کر تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا، اپنی سمت اور منزل دونوں کھو چکے ہیں۔ یہ موسمی سیاست دان اس وقت سیاسی آوارہ گرد بن چکے ہیں جو پھر سے اس خاص ہوا کے چلنے کا انتظار کر رہے ہیں جو کئی عشروں سے انہیں اور اونچا اڑانے کے لئے وقفے وقفے سے چلتی ہے اور ان کی سمتوں کا تعین کرتی آئی ہے۔
یہ سیاسی آوارہ گرد اس وقت عمران خان کی مقبولیت اور ووٹ بینک کی آڑ لے کر ان کے گرد جمع ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس فی الحال کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نئی بھرتیاں نہیں کر رہی لہٰذا وہ اسٹیبشلمنٹ کی جانب سے شدید مایوس نظر آتے ہیں۔ تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ سیاسی آوارہ گردوں کا یہی ٹولہ ہر دور میں آمریت کا ہراول دستہ بنتا رہا۔ ان کی سیاست کا مقصد ہمیشہ سے اقتدار رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بار بار لوٹے بنتے رہنا ان کا مستقل پیشہ ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ یہی ٹولہ اس وقت خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتا پھرتا ہے۔ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی خبر تو درست ہو سکتی ہے مگر ان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی بات کبھی سچ نہیں ہو سکتی۔ ہاں البتہ ان کو متاثرین اسٹیبلشمنٹ کہا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
اس سیاسی آوارہ گرد ٹولے کا سرغنہ شاہ محمود قریشی ہے جس کے بارے میں تحریک انصاف کے گھریلو صحافی ہارون رشید کہتے ہیں کہ یہ غدار ابن غدار ہے کیونکہ ان کے دادا نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور جنگ آزادی کے ہیرو احمد خان کھرل کو مخبری کے ذریعے قتل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے والد سجاد حسین قریشی ضیاء الحق کے قربیی لوگوں میں شامل تھے جن کو ضیاء الحق نے پنجاب کا گورنر بنایا۔ شاہ محمود 1985 میں پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1986 میں وہ نواز شریف کے زیرصدارت مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ 1988 میں پھر سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان کی کابینہ میں صوبائی وزیر بھی رہے۔ 1993 میں ان کو نواز شریف نے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو اڈاری مار کر پاکستان پیپلز پارٹی میں جا پہنچے۔
2008 کے انتخابات کے بعد جب ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پیپلز پارٹی کے حلقوں میں شاہ محمود کا نام ممکنہ وزیراعظم کے لیے لیا جانے لگا مگر اسٹیبلشمنٹ سے شدید زخم کھائے ہوئے آصف علی زرداری نے شاہ محمود کی جگہ سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا۔ ایک ہی شہر کے باسی اور سیاسی حریف ہونے کے باعث شاہ محمود کو یوسف رضا کی تعیناتی سے شدید دھچکا لگا جو ان کی پیپلز پارٹی سے اڑان بھرنے کی اصل وجہ بنا۔ ان کو یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنایا گیا مگر وہ پیپلز پارٹی چھوڑنے کے لیے کسی مناسب موقعے کی تاک میں لگے رہے۔ بالآخر لاہور میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں نوجوانوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پیپلز پارٹی سے الگ ہو گئے اور خود کو انقلابی بنا کر پیش کیا۔ تحریک انصاف میں باقاعدہ بھرتی کا عمل شروع ہوا تو شاہ محمود پیش پیش تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ انہیں بنایا جائے مگر تحریک انصاف نے انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہی نہ ہونے دیا۔ وہ اب بھی دل میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش چھپائے تحریک انصاف کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں مخدوم، گدی نشین، پیر اور سجادہ نشین زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کے لیے اس ہوا کے رخ پر اڑتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے چلائی جاتی ہے۔ اس وقت بیش تر گدی نشین، مخدوم اور پیر تحریک انصاف میں شامل ہیں مگر یہ اس وقت تک ہیں جب تک نئی ہواؤں کے زیر اثر انہیں کوئی نیا اشارہ نہیں مل جاتا۔ عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی کے بعد سیال شریف سے لے کر سلطان باہو تک کے تمام گدی نشین جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہوتے چلے گئے۔
سیاسی آوارہ گردوں کے اس ٹولے میں شیخ رشید کے نام نے اس گروہ کی پہچان میں بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جب کبھی عوام کو اسٹیبلشمنٹ کے ٹولے کی پہچان میں دقت پیش آنے لگے تو وہ شیخ رشید کودیکھ لیا کریں۔ شیخ رشید جہاں نظر آئے گا، اسٹیبلشمنٹ وہیں پائی جائے گی۔ کونسلر سے لے کر قومی اسمبلی اور پھر اعلیٰ وزارتوں تک اس کو فوج نے انگلی پکڑ کر پہنچایا۔ اس کی ساری سیاست اور سارا زعم صرف جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی وجہ سے تھا۔ ضیاء اور مشرف کی کھلے عام آمریت اور باجوہ-فیض کی پس پردہ آمریت میں یہ شخص پیش پیش رہا ہے۔ گیٹ نمبر چار کی سروس کی عارضی معطلی کے بعد یہ عمران خان کے ساتھ چمٹ کر نظریاتی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بننے کی بھونڈی اداکاری کر رہا ہے۔ شیخ رشید اور نظریہ؟ شیخ رشید اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ؟ یہ تو وہی بات ہو گئی؛ 'ہور تے ہور، اسی وی چلے لاہور'۔ ترس آتا ہے ان لوگوں پر جو شیخ رشید کو بھی عمران خان کی بظاہر اینٹی اسٹیبلشمنت مہم میں نہلا کر پوتر کرنا چاہتے ہیں۔
سیاسی آوارہ گرد ٹولے کا ایک اور سرخیل عمر گوہر ایوب ہے جس کا نام ہی کافی ہے۔ ان کے دادا ایوب خان کی پاکستان کی سیاست کے لیے خدمات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ان کے 'بنیادی جمہوریت' جیسے ناکام اور سیاست دشمن منصوبوں نے ملک کی سیاست کو بہت شروع ہی سے زنگ آلود کرنا شروع کر دیا تھا۔ جنہوں نے فاطمہ جناح، مولانا بھاشانی، فضل الحق اور شیخ مجیب الرحمٰن جیسے رہنماؤں کو غدار اور ریاست دشمن قرار دے کر مشرقی پاکستان میں ریاست پاکستان کے خلاف نفرت اور دشمنی کے وہ بیج بوئے جن سے پکنے والی فصل نے 1971 میں پاکستان کو خون کے آنسو رلایا۔
عمر گوہر ایوب کے والد گوہر ایوب مختلف ادوار میں اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹیوں کے مختلف دھڑوں سے ہوتے ہوئے ضیاء الحق کی بھرتی کے دور میں نواز شریف کی مسلم لیگ میں شامل ہو کر سیاست میں فعال ہوئے اور اعلیٰ وزارتوں سے نوازے گئے۔ مشرف دور میں انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2002 میں عمر گوہر ایوب اور ان کی والدہ زیب گوہر ایوب رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ماں اور بیٹا ایک ساتھ قومی اسمبلی پہنچے۔ اسٹیبلشمنٹ کی تحریک انصاف کے لیے بھرتیوں کے دوران اپنی اہلیت ثابت کرنے پر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور وفاقی وزیر بھی بنائے گئے۔ وہ ابھی تک نئی سمت کا تعین نہ ہونے تک تحریک انصاف میں ہیں اور عمران خان کے گرد کھڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا واویلا مچا رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک عمدہ اور مؤثر قسم کی لانڈری ہے جہاں پر سیاسی گناہوں کو دھونے کا کام تسلی بخش انداز میں جاری ہے۔ آپ نے جتنی بھی سیاسی وفاداریاں بدلی ہوں، کتنے ہی آمروں کا ساتھ دیا ہوا؛ اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے اور نہا لینے کے بعد آپ کے سارے پاپ ایک آن میں اڑن چھو ہو جائیں گے۔ اگلے مرحلے میں پہنچ کر کہیں آپ کو عمران خان کا قرب حاصل ہو جاتا ہے پھر تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کرپٹ اور ضمیر فروش ثابت نہیں کر سکتی۔ اس کی ایک واضح مثال عمران خان کے ساتھی اعجاز الحق کی ہے۔
اعجاز الحق اگرچہ کسی تعارف کے محتاج نہیں تاہم معلومات عامہ کے لئے دہرا دیتے ہیں کہ ان کو دو فضیلتیں حاصل ہیں؛ ایک تو یہ کہ موصوف جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ہیں اور پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ان کے دست راست جنرل رحیم کے داماد ہیں۔ ان کی ساری سیاست اپنے فوجی بھائی چارے کے اردگرد گھومتی ہے۔ پہلے مسلم لیگ ن، پھر مسلم لیگ ق اور آخر میں حسب توقع تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ ان کا طریقہ واردات بھی خاصا دلچسپ ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ضیا) بنا رکھی ہے جس کے یہ اکیلے 'رہنما' ہیں مگر ہارون آباد اور فورٹ عباس میں برادری کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کو خاص ہوا چلنے کا بہت پہلے سے پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے امام کے آ دھمکنے سے بھی بہت پہلے اپنا قبلہ درست کر چکے ہوتے ہیں۔ انہوں نے بھی خود کو انقلابی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور عمران خان کے ساتھ مل کر 'نظریاتی' جنگ لڑ رہے ہیں۔
عمران خان کے گرد پائے جانے والے سیاسی آوارہ گردوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر کسی کو اس پہ تحقیق کا شوق ہو تو وہ مشرف دور کے سیاست دانوں کی فہرست سامنے رکھے تو بے شمار ایسے چہرے ملیں گے جو آج عمران خان کے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ اس وقت مشرف لیگ میں تھے اور اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن اور اس سے پہلے کسی اور پروجیکٹ کا حصہ تھے۔ یہ طبقہ ہرگز انقلابی اور نظریاتی نہیں ہے۔ ان کا واحد نظریہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سایے میں رہ کر اقتدار حاصل کرنا رہا ہے۔ یہ ابھی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے باہمی تصادم کے نتیجے میں چلنے والی آندھی میں پھنس گئے ہیں اور اپنے ان رہبروں کو صدا دے رہے ہیں جو ان کو تحریک انصاف میں لے کر آئے تھے۔
پاکستان کے معصوم عوام کو کب اس بات کا ادراک ہو گا کہ یہ بظاہر انقلابی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظر آنے والے بہروپیے اصل میں اسٹیبلشمنٹ کے خاص اور اصل ہتھیار ہیں جن کو آخری مرتبہ 2018 میں استعمال کیا گیا تھا۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ ان کی موجودہ حالت زار پہ اپنا ایک قطعہ حاضرہے؛
منزل کا پتہ نہیں، راستہ کھو چکے ہیں
سیاست کے سفرمیں آوارہ گرد ہو چکے ہیں
کوئی رہبر ہو، مسیحا ہو، باوردی خضر ہو
نئی سمت دکھلاؤ کہ نڈھال ہو چکے ہیں
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔