کنٹرول کا ماڈل تو برسوں پرانا ہے۔ نیا کیا ہے؟

کنٹرول کا ماڈل تو برسوں پرانا ہے۔ نیا کیا ہے؟
میرے لئے اس ملک میں پیدا ہونا تو نہیں بلکہ ایسے حالات میں پیدا ہونا زیادہ تکلیف دہ تھا کہ جس میں بظاہر تو سب صحیح بتایا جاتا تھا مگر کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ گھر میں عموماً خرچے کی وجہ سے لڑائی۔ پھر وہی احساس سکول کے ماحول میں۔ عجیب کشمکش کا شکار ہی رہتا۔

اردو کی درسی کتاب کا ایک خاص مزاج ہوا کرتا تھا، اب بھی ہوتا ہوگا۔ ایک دو سبق ایک خاص ویلیو پر ضرور ہوتے تھے۔ ایک بچے کی کہانی ہوا کرتی تھی۔ بچے کا نام یاد تو نہیں ہے۔ ہاں، اس کا کردار خوب یاد ہے۔ وہ گاؤں کا ایک انتہائی سلجھا ہوا لڑکا، معاشرے بھر کی تمام ویلیوز اس ایک کردار میں بھر دی گئیں، وہ جھوٹ نہیں بولتا، وہ بڑوں کا ادب کرتا ہے، دوستوں کی مدد کرتا ہے۔ کہانی کو مزید ڈرامائی بنانے کے لئے اس میں ایک عدد دادا جان بھی ڈال دیے جاتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں، جھگڑا بالکل نہیں کرتے، سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ پھر یہ کہ داداجان بچے کو غریب کی مدد کرنا سکھاتے ہیں، بچوں کو اس چیز میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کے عمل، یعنی کہ ایکشن کا ری ایکشن کتنی شکلوں میں آتے ہیں۔ غریب کی مدد کرنے کا جو ری ایکشن ثواب کی صورت میں ملتا تھا، اس عمر میں وہ ایک الگ ہی تجربہ ہوا کرتا ہے۔ ایک ایسی چیز جو داداجان کے مطابق آ تو رہی ہے مگر نظر نہیں آ رہی۔ اس کا تعلق رات کو سونے سے پہلے سنائی جانے والی کہانیوں سے بھی ہے۔ بچے کے ذہن میں ابسٹریکٹ اتنا بھر دیا جاتا ہے کہ بچہ بڑا ہو کر قاسم علی شاہ ہی بنتا ہے، کوئی اور آپشن ہی نہیں ہوتا۔

گھر میں لڑائی زدہ ماحول، خرچے میں تنگی، والدین کا بچوں کے بنیادی مسائل ہی سمجھ نہ پانا اور پھر معاشرہ جو سیرپ گھول کر پلا رہا، اس کو بھی پینا ہے، کس قدر پیچیدہ ہو جاتا ہوگا؟


یہاں اہم بات یہ کہ کلاس کو اور ان طبقاتی مسائل کو یکسر مسترد کرنے کی اس قدر کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مزید پیچیدگی کا سبب بنے۔ یا ان مسائل کا جو بچے کے ذہن میں بننے ہیں اس کا ادراک معاشرے میں سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ گھر میں لڑائی زدہ ماحول، خرچے میں تنگی، والدین کا بچوں کے بنیادی مسائل ہی سمجھ نہ پانا اور پھر معاشرہ جو سیرپ گھول کر پلا رہا، اس کو بھی پینا ہے، کس قدر پیچیدہ ہو جاتا ہوگا؟

کتابیں لکھنے اور لکھوانے والوں سے بنیادی سوال ہے کہ اس بچے نے بڑا ہونے کے بعد کبھی اس دھوکے سے باہر نہیں آنا جس میں آپ آج اس کو ڈال رہے ہیں۔ میرا تو خیال ہے ضرور آنا ہے۔ جیسے جیسے انسان زندگی کی منازل طے کرتا جاتا ہے اس کے ذہن کے وہ سوال جو گرد کی طرح بٹھا دیے گئے تھے، وہ اٹھتے ہیں۔ معاشرے کے تضادات کو بھانپتے ہوئے، خوف کی زنجیروں کو توڑنا ہے۔ زندگی میں فکری ارتقا کی منازل میں ایسا دور بھی آتا ہے۔

عوام کو ایک چیز پتہ ہے، وہ یہ کہ بھارت ایشیائی سپر پاور بن چکا ہے

کٹھن حالات سے، پیچیدگیوں سے ہر وہ آدمی گزرتا ہی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا حق کہیں نہ کہیں غبن ہو رہا ہے۔ کہیں کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ ہمارا نصاب اور سسٹم کی تمام تر رکاوٹیں جو ہمیں ایک سمت کا بتاتی تو ہیں، مگر ان کا یہ سٹریس سائنسی بنیادوں پر آج تک منفی نتائج کا ہی حامل رہا ہے۔

آج ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ جیسے بھارت کے حکمران، اکیسویں صدی میں بھی ذات پات، بھوک ننگ سے باہر نہ آئے مگر عوام کو ایک چیز پتہ ہے، وہ یہ کہ بھارت ایشیائی سپر پاور بن چکا ہے، اب تو خلاؤں میں گھوم رہا ہے۔ ہم عوام ایسی خوبصورت باتوں میں مگن ہیں۔ یہ معلوم بھلا کیوں کریں کہ ہمیں ننگا کر کے ہمارا تماشہ کرنے والی کلاس کے ہی گھڑے تماشے ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہے، عوام اسی سے کھیل رہی ہے، غوری میزائل کو اس بحث میں کون جھلا بھول سکے ہے۔ ایک سر پھرا جالب چلتے چلتے یونہی کہیں کہہ گیا تھا کہ “اپنے خرچ پر ہیں قید، لوگ تیرے راج میں”۔ اکیسویں صدی کی جمہوری غلامی پر بھی صادق آتا ہے۔

ہمیں زندگی میں سکون کے احساس کے لئے یہ افیون دی جاتی ہے

مارکس نے بھی چلتے چلتے بے دھیانی میں کہیں کہہ دیا تھا کہ مذہب انسان کے لئے افیون ہے۔ فرق نہ کرنا، اچھے کام کرنا، یہ جو اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں، ان کا کنزیومر آپ مجھ جیسا ہی ہو سکتا ہے۔ ہمیں زندگی میں سکون کے احساس کے لئے یہ افیون دی جاتی ہے۔ طبقات کی بحث شروع ہونے سے قبل ہی جن سوالات کو حائل کر کے کلاس کی بحث کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان سوالوں کے جوابات تو کیا دینا یہ بات سنبھال کے رکھ لیں۔ وہ یہ کہ طبقاتی جدوجہد طبقات کو طول دینا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ان مسائل کے ادراک کی طرف ایک کوشش کا آغاز ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کی ایک جنگ ہے۔ یہ مسائل خود سے حل ہونے والے نہیں ہیں، سکون سے بیٹھے رہنے سے کبھی کوئی حق یا آزادی ملے ہیں؟ زکوٰۃ، خیرات، دیوار مہربانی، سادگی وغیرہ کو بھی ہم صرف آئیڈیل بنیادوں پر رکھ کر وقتی افیونی سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ موجودہ حکومت کی بھی دوڑ نہیں ہے۔

اسد عمر خود بیان کرتے ہیں کہ حکومت کتنے پانی میں ہے۔ پھر بحثوں کا رخ مذہب، پاکستانیت کی جانب اس قدر خوبصورتی سے موڑا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔

کلاس کے مسائل کے ذکر سے جب ان کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو وہاں اس فرق کو محسوس کیا جانا چاہیے کہ کلاس کے فرق کو کون ختم ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا۔ جہانگیر ترین جس کا بیٹا کرکٹ ٹیم کا مالک بننے جا رہا ہے وہ کیوں چاہے گا کہ طبقاتی استحصالی جس کا سبب وہ ہے، ختم ہو اور اس کی مل میں کام کرنے والے مزدور کا بچہ اس کے بچے کی برابری کر سکے۔ شریف خاندان فیصل آباد کی چھوٹی انڈسٹری کو تباہ کرنے کا کیوں مرتکب ہوا، چھوٹا صنعتکار اب تک رو رہا ہے کہ ایک صنعتکار دوسرے صنعتکار کا دشمن کیسے ہو سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب تو اب کوٹ لکھپت سے ملے تو ملے۔ پلاننگ اتنی زبردست تھی کہ کبھی مزدور اور صنعتکار کو اپنے خلاف ایک طاقت بننے ہی نہیں دیا گیا۔

ہم کیوں منظور پشتین کی قوم کو وہی راستہ خود دکھا رہے ہیں؟

مسائل کی بحث سے بھاگنے کا ایک اور طریقہ نیشنل ازم، چھوٹی قوموں کی شناخت کو نشانہ بنا کر ان کا تماشہ بنانا ہے۔ ریاست جہاں بھی دیکھا جائے اس کو کنفرنٹ کرتی نظر آتی ہے۔ یاد رہے، پشتون، بلوچ، سندھ، بلتی قومیت کا شور اس لئے نہیں ہے کہ ان قوموں کو بغیر کسی وجہ کے پاکستان کے بنیادی نظریات سے محاذ آرائی کرنی ہے، یا وہ خود کو ہمیشہ سب سے الگ کر کے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ ان کو یوں الگ کر کے نہ دیکھا جائے، اور اس بنیاد پر ان کا استحصال نہ کیا جائے۔ جہاں تک قومیت کی ان تحریکوں پر ریاست یا ریاست کے نکتہ نظر کے ساتھ کھڑے عوام کا تعلق ہے، یہ کیسی ریاست ہے کہ اپنے لوگوں کو سمجھنے کی  بجائے خطرے کی مختلف تشریحات شروع کر دیتی ہے؟ ہمیں بلوچوں کو اٹھا کر غائب کر دینے، مار کر پھینک دینے سے پہلے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجوہات کا ادراک کیوں نہیں ہو پاتا؟ ہم کیوں منظور پشتین کی قوم کو وہی راستہ خود دکھا رہے ہیں؟ یہ بحث بھی بھلا اب کے اتنی اہم کیوں ہے کہ پشتون تحریک کا موازنہ کالوں کی بلیک لائیوز میٹر تحریک سے نہیں بنتا۔ تاریخی جوڑ توڑ سے کچھ صحیح، کچھ من مانے نتائج نکال کر کتنا دور جایا جا سکتا ہے؟

اس حقیقت کو مزید دھندلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ Haves and have nots ہے

ہم پاکستانی ہیں، ہم ایک قوم ہیں، یہ باتیں کرنے والے اس context میں ملک پاکستان میں بسنے والی چھوٹی قوموں کو گالی بھی دے دیں تو اس کو پاکستانیت کا تقاضہ سمجھ کر چھوٹی قوموں کے خلاف محاذ آرائی شروع کر کے اس حقیقت کو مزید دھندلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ Haves and have nots ہے۔ کوئی سوال کرنے کی جرأت کرے تو اس کو غدار بنانے میں دیر نہیں لگتی۔

یہ دراصل طاقت کی لڑائی ہے۔ باقی بحثوں کو اگر مرکزی حیثیت حاصل ہے تو وہ سامراج کی طرف سے عوام کو مزید دبانے کے ہتھکنڈے ہیں۔ بھگت نے کہا تھا کہ انگریز کے جانے سے سسٹم تو نہیں بدلے گا، اس کی جگہ بھورا انگریز لے لے گا۔ آج لکیر کی دونوں جانب بھورا انگریز ہی تو قابض ہے، عوام آزادی کے مطلب میں آج تک کھوئے ہی ہوئے ہیں۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔