مئی 2018 میں تحریک انصاف کے منشور کے منظر عام پر آنے کے بعد سے پاکستانی عوام کو پرکشش وعدے اور خواب پیش کیے جا رہے ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے نے انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کو راغب کرنے کیلئے حکومت میں آنے کی صورت میں پانچ سال میں عوام کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس وعدے نے عوام کی توجہ کامیابی سے اپنی جانب مبذول کروا لی اور عوام کو یہ امید ہو گئی کہ نیا پاکستان میں حکومت کی جانب سے بیروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے اس وعدے کو حقیقت کے منفی قرار دیا اور سوشل میڈیا پر اس اعلان کو لیکر حکومت وقت کا بھرپور تمسخر اڑایا گیا۔
اس حکومتی وعدے پر جو بنیادی سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت ہر سال بیس لاکھ نوکریاں کیسے پیدا کرے گی، جس کا مطلب ہے کہ 1666،666 نوکریاں اسے ہر ماہ ، 38,461 نوکریاں ہر ہفتے اور 5480 نوکریاں اسے روزانہ کی بنیاد پر فراہم کرنا پڑیں گی۔ یہ بیحد ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے ہدف کا شماریاتی جائزہ لیا جائے۔ جی ڈی پی، زراعت، سروسز اور صنعتی سیکٹر کے ترقی کی رفتار جو بالترتیب 5.8%، 3.8%، 6.4% اور 5.8% ہے، اس کی روشنی میں میرے ذاتی خیال میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا ہدف نہ تو غیر حقیقی ہے اور نہ ہی ناممکن۔ بلکہ اس کو حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے نے ابھی تک ثمرات عوام تک نہیں پہنچائے اور جلد ہی اس کے معاشی ثمرات اور فوائد عوام تک منتقل ہونا شروع جائیں گے۔
ورلڈ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق مالیاتی سال 2017 میں پاکستان میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 7 کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 5.5% ہے۔ یعنی 41 لاکھ 20 ہزار بیروزگار افراد معیشت میں کام کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کےعلاوہ بڑھتی ہوئی آبادی جس کی شرح نمو 2 فیصد سالانہ ہے اس کے باعث ہر سال 21 لاکھ نئے افراد نوکریوں کی تلاش میں معیشت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس لئے سالانہ 20 لاکھ نوکریاں پیدا کرنے کے ہدف کے باعث بیروزگاری کی یہ شرح اتنی ہی رہے گی۔
اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکردگی کے معیار کو جانچ کر تحریک انصاف کے نوکریاں پیدا کرنے والے ہدف کو جانچا جا سکتا ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں (2013-2017) میں بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد سے کم ہو کر 5.9 فیصد تک آگئی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً 80 لاکھ 34 ہزار نئی نوکریاں پیدا ہوئیں۔ ورلڈ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں پاکستان کے مجموعی کام کرنے والے افراد کی تعداد 6 کروڑ 10 لاکھ 33 ہزار تھی جس میں سے 5 کروڑ 75 لاکھ روزگار سے منسلک تھے جبکہ 30 لاکھ 83 ہزار افراد بیروزگار تھے، اور بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔ پاکستان کی کام کرنے والی آبادی کی تعداد میں 2013 سے 2017 کے درمیان میں 14 فیصد اضافہ ہوا اور 2017 میں یہ تعداد 6 کروڑ 96 لاکھ 7 ہزار تک پہنچ گئی۔ ان میں سے 65.84 ملین افراد روزگار سے منسلک تھے جبکہ باقی 5.9 فیصد بیروزگار تھے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف بیروزگاری کی شرح چار سالوں میں 6.2 فیصد سے گھٹ کر 5.9 فیصد تک جا پہنچی بلکہ ملک میں 80 لاکھ 34 ہزار نئی نوکریوں کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معیشت نے 2013 سے 2017 تک 20 لاکھ 16 ہزار نوکریاں پیدا کیں۔ ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بیروزگاری ختم کرنے اور نوکریوں کے مناسب مواقع فراہم کرنے کیلئے 7 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے۔
یہ کیسے ہوا؟
سٹیٹ بنک آف پاکستان کی معاشی رپورٹ 2018 کے مطابق مالیاتی سال 2018 میں ترقی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا اور معیشت نے 13 سالہ ریکارڈ جی ڈی پی ترقی 5.8 فیصد کی رفتار سے ترقی کی۔ 2017 میں یہ اوسط 5.4 فیصد تھی۔ جی ڈی پی کی ترقی کی کی یہ اوسط تینوں مرکزی شعبہ جات زراعت، سروسز اور صنعتوں میں دیکھنے کو ملی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جی ڈی پی کی ترقی کی رفتار کی وجہ جو عناصر تھے ان میں فنانسنگ کی کم قیمت، انرجی کی بہتر ترسیل، مثبت کاروباری رجحان، مالیاتی فوائد اور سبسڈیز اور قرضوں تک آسان رسائی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے پیسہ خرچ کرنے کی استعداد میں اضافہ اور چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری نے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا اور مختلف کمپنیوں کو اس باعث اپنی پیداواری صلاحیتیں زیادہ کرنی پڑیں۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ڈیجیٹائزیشن سے متعلق ایک خصوصی باب شامل ہے جس نے پاکستان میں ای کامرس کی ترقی کی رفتار کو تیز رفتار قرار دیا ہے۔ اس ڈیجیٹائزیشن کے باعث خدمات فراہم کرنے والے کاروباروں کا معیار بہتر ہوا ہے اور خدمات کی ڈیلیوری کم قیمت اور آسان ہو گئی ہے جس کے باعث خریداروں کو اچھے اور سستے مواقع فراہم ہونا شروع ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں سروسز انڈسٹری کے بدلتے ہوئے رجحانات نئے مواقعوں کو جنم دینے کا باعث بن رہے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہمیں صرف ان معاشی عناصر پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جن کا ذکر سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بیروزگاری ختم کرنے کیلئے کیا ہے۔