ہم نے اپنے بھڑولوں کو آخر کس قسم کی گندم سے بھرا تھا

ہم نے اپنے بھڑولوں کو آخر کس قسم کی گندم سے بھرا تھا
بھڑولا، جو لوگ پنجابی سے انجان ہیں، ان کو بتاتی چلوں بھڑولا پنجابی کا لفظ ہے۔ اور اس کا مطلب ہے ایک بہت بڑا ڈرم جس میں سال بھر کی ضرورت کے مطابق گندم ذخیرہ کی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اور بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں وہاں بھڑولے بھی ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب شاید ہی کہیں دور دراز کے دیہاتوں میں کسی گھر میں بھڑولا موجود ہو۔ مگر اکثر لوگ اس سے انجان ہیں۔

مجھے آج بھڑولا ایسے یاد آ گیا کہ بچپن میں میری دادی (جو کہ گاؤں بھر کے لیے ایک بڑی کا درجہ رکھتی تھیں) کے پاس گاؤں بھر کی خواتین اپنے مسائل لے کر آتی تھیں۔ کبھی کوئی بیوی شوہر کی شکایت لے کر تو کبھی کوئی ساس بہو کے رویے کا رونا لے کر تو کبھی کوئی ماں اپنے نافرمان بچوں کی سرزنش کو ان کو ساتھ لئے دادی کے پاس بیٹھی پائی جاتی تھی۔ رکھ رکھاؤ کا دور تھا جس کو بھی وہ سمجھاتیں، شرمندہ ہو کر اور رویہ بدلنے کا وعدہ دے کر رخصت ہو جاتا۔

ان دنوں ایک بات جو وہ تقریباً ہر سخت مزاج کی خاتون جو ساس کے عہدے پر فائز ہوئی ہوتی ان کو سمجھاتی تھیں، وہ ان ہی کے لفظوں میں بیان کرتی ہوں کہ ''سن بہن، بہو تو بھڑولے کی مانند ہوتی ہے، جیسی گندم ڈالو گی ویسی کل کو واپس ملے گی، عزت، پیار دو، کھانے پینے کا خیال کرو گی تو کل کو صحت مند ہنستے کھیلتے پوتے پوتیاں کھیلاؤ گی، ورنہ لے لینا ریں ریں کرتے کمزور سے بچے'' دادی تو کب کی گئیں آسمان کے اس پار کسی اور جہان کی خواتین کے مسائل سلجھانے۔ مگر میں آج جب میں اپنے اردگرد بےشمار الجھے، پریشان، غصے سے بھرے نوجوانوں کو دیکھتی ہوں۔ کوئی بھی دو خوبصورت سے سستے لفظ اور حسین سپنے دکھا کر، کسی بھی راستے پر موڑ دے۔ کوئی بھی کسی کا بھی گریبان پکڑنے اور تباہی پھیلانے کو ان کو راضی کر لے۔

جھوٹی انا، بیوقوفانہ ضد اور انتہائی احمقانہ جواز۔ تو سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ ہم نے اپنے بھڑولوں کو آخر کس قسم کی گندم سے بھرا تھا کہ آج یہ کمائی ہاتھ آئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے ان کے اندر احساس کمتری، دوسرے درجے کے فرد اور چھوٹی سی غلطی پر ذلت کے انبار کے ساتھ ساتھ، ہما وقت کسی بھی غلطی پر بے گھر ہونے کے ڈر سے، ایسے تو نہیں بھر دیا تھا کہ ان کے اندر کسی مثبت جذبے کی جگہ ہی نہیں بچی تھی۔ کہیں ہم نے ان پر امیدوں اور ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ تو نہیں ڈالا تھا کہ ان کو پتہ ہی نہیں چلا کب ان میں موجود گندم کو معاشرے اور مفاد پرست لوگوں کی گھن لگ گی، وہ کب اس دھرتی کے لہلہاتے رزق سے کسی کی ذاتی اور مفاداتی جنگ کا بے قیمت ایندھن بنے۔ خبر ہی نہ ہوئی۔

کہیں ہم نے ہر موقع پر اس کی سوچ اور رائے کا اتنی بری طرح سے مذاق تو نہیں اڑایا تھا کہ وہ خاموشی کی ایسی دبیز تہہ کے نیچے دبی کہ گندم کے پودوں کو ببول میں بدلتا دیکھتی رہی اور کچھ بول ہی نہیں پائے۔ ہم نے ہر وقت ہماری اولاد، ہمارے بچے کہہ کہہ کر اسے ماں سے باندی میں تو نہیں بدل دیا تھا۔ بچوں کے سامنے کہے ایک ہتک آمیز لفظ نے اسے کب نگہبان بھڑولے سے گندم سے نکلے بھوسے (چھٹن) کو اکھٹا کرنے والے جھاڑو میں بدلا، کسی کو علم ہی نہ ہوا۔ وہ مان، وہ اختیار، وہ عزت نہ ملی جو حق تھا تو کسی نے خود کو ایسے گزرتے دن رات میں گم تو نہیں کر لیا کہ جسم خدمت کرتا رہا اور روح چلی گئی۔

کیونکہ، جب بھڑولے سے روح چلی جائے تو اس میں موجود گندم کو کب ساون کی نمی آ کر ناقابل استعمال بناتی ہے، اس کا علم نہیں ہوتا۔ ایک خالی وجود خدمت پر معمور، آپ اپنی فتح کے نشے میں چور رہیں، اس نے کب لاتعلقی کی چادر اوڑھ کر آپ کے کل کے رزق کو ناکارہ پھپھوند لگی گندم میں بدلا۔ کیسے اپنی شکست کو آپ کے بخت کی سیاہی بنایا، آپ کو پتہ بھی نہیں چلا۔ نقصان گندم کا بھی ہوا مگر جب بھڑولے کو دھوپ میں نہ رکھو، اس کے حصے کی ہوا اور روشنی نہ دو، تو پھر ایسے نقصان تو ہوتے ہیں۔

اگر آپ کی ذہنیت آپ کو عورت کو انسان سمجھنے کی اجازت نہیں دیتی، اسے موتی، جوتی، نگینہ کچھ نہ کچھ سمجھنا ضروری ہی ہے تو اسے کم از کم بھڑولا سمجھیے۔ کچھ ہوا، سانس اور مرضی کی دھوپ دے کر اسے نہ سہی اپنے مستقبل کے رزق کو بچا لیجیے۔

یقین مانیے! بھڑولے سے زیادہ آپ ہی فائدے میں رہیں گے۔