ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی بل کی حمایت کرے گی۔ اس اعلان کے نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا آ گیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سپورٹرز اور ناقدین دونوں ہی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا وہ نعرہ جس نے گذشتہ برس مقتدر حلقوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں، اپنی موت آپ ہی مر گیا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے حامیوں اور ووٹرز میں تو یہ نعرہ گھر کر گیا تھا لیکن پارٹی کے اندر یہ نعرہ کبھی بھی مقبول نہیں تھا۔ پارٹی قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے علاوہ پوری جماعت میں اکا دکا لوگ ہی ہیں جو اس نعرے سے اتفاق کرتے ہیں۔ باقی تمام ایم این اے، ایم پی اے اور پارٹی کی سینیئر سطح کی قیادت بشمول نواز شریف صاحب کے بھائی شہباز شریف کے، کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کو پارٹی کے حق میں نہیں سمجھتا۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کبھی نہ تھے اور نہ ہی کبھی ہوں گے۔
ایسے تمام افراد جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے ساتھ کھڑے رہے، الیکشن کے وقت سے زیرِ عتاب ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنااللہ اور خود سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اس حوالے سے بڑی مثالیں ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ ’باغی‘ افراد جیلوں میں بے دست و پا بیٹھے تھے، وہیں ’دستیاب قیادت‘ یقینی بنا رہی تھی کہ جماعت میں مزاحمت کا کوئی عنصر باقی نہ رہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس میں مسلم لیگ نواز نے کوئی قابلِ ذکر عوامی activity نہیں کی، کوئی جلسہ، کوئی تقریر، یہاں تک کہ کارکنان کے لہو گرما دینے والا کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا۔ مریم نواز نے جلسے، ریلیاں شروع کیں تو انہیں بھی واپس جیل بھیج دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کے ’آزادی مارچ‘ اور دھرنے کو بھی بے دلی سے سپورٹ کیا گیا۔
اس خاموشی کا اس حد تک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ نواز شریف آج ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ ان کے بھائی بھی ان کے ساتھ لندن میں موجود ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مریم نواز بھی کچھ دنوں تک ملک چھوڑ جائیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ خاندانی اور شخصی مفادات تلے دب کر مر چکا ہے۔
صحافی سید طلعت حسین یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے پی ٹی آئی کا تھوکا ہوا چاٹا ہے۔ اور سلیم صافی جب یہ کہتے ہیں کہ آج پوری مسلم لیگ نواز کو مریم نواز کی قیادت میں جا کر چودھری نثار علی خان سے معافی مانگنی چاہیے تو ان کی بات بھی وزن رکھتی ہے کیونکہ چودھری نثار بار بار قیادت کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول نہ لیں۔ اگر 125 پیشیاں بھگتنے کے بعد، تاحیات نااہلی کا داغ لیے وزارتِ عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد پارٹی کی صدارت سے نکالے جانے کے بعد، ایک نشست تک نہ رکھنے والی جماعتوں کے کارکنان سے جوتے اور گولیاں کھانے کے بعد، الیکشن ہار کر ڈیڑھ سال جیل میں رہ کر پوری جماعت کا تیا پانچا کروا لینے کے بعد بالآخر چودھری نثار کے دیے نسخے کے مطابق سو پیاز ہی کھانے تھے تو یہ سو جوتے کھانے اور کارکنان کو بھی اپنے ساتھ کھلوانے کی کیا ضرورت تھی؟
آخری تجزیے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہی تاریخی طور پر درست ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ وہ کیا چیز ہے جس نے مسلم لیگ نواز کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لئے قانون سازی میں ساتھ دینے پر مجبور کیا۔
پارٹی کی موجودہ قیادت کا ماننا ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کو اچھے بچے بن کر دکھائیں گے، تو بالآخر انہیں ایک نہ ایک دن احساس ہو جائے گا کہ نون لیگ ہی معیشت کو سنوار کر ملک میں سیاسی استحکام لا سکتی ہے اور اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی ہر صحیح غلط بات مان لی تو اس خدمت سے خوش ہو کر ان ہاؤس تبدیلی کے لئے ہاں کر دی جائے گی اور پھر ایک ’منصفانہ‘ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آ کر شہباز شریف ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔
پلان تو بہت اچھا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی؟
کابینہ میں منظور شدہ بل کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہو گا۔ اس ترمیم کے پاس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کا کوئی طریقہ کار ہی نہیں رہے گا۔ جہاں اسے ملک میں استحکام یقینی بنانے کا ایک طریقہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، خدانخواستہ یہ قانون مستقبل میں عدم استحکام کا سب سے بڑا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کو لبھا کر اقتدار حاصل کرنے میں تو شاید کامیاب ہو جائے، لیکن ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے نے مسلم لیگ نواز کو جمہوریت کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت کا جو تشخص عطا کیا تھا، وہ اس اقتدار کی بہت بھاری قیمت ہو گی جو چکانے کی سکت یہ عوام شاید نہیں رکھتی۔
اور پھر آخر میں سوال وہی ہے کہ، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ سب کچھ پلان کے مطابق ہوگا؟