ویسے بھی ہم بحیثیت قوم سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے والے نہیں لیکن فیس بک اور سوشل میڈیا پر تو دو تین سطروں سے زیادہ پڑھ ہی نہیں سکتے اور غیر سنجیدگی کا تو یہ حال ہے کہ جن حالات پر ماتم کرنا ہوتا ہے ہم اس پر لطیفے بناتے ہیں اور یوں حقیقی زندگی رو رو کر گزارتے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جس میں مین سٹریم میڈیا صحافت سے زیادہ 'اسٹیٹس کو' کو بچانے والی قوتوں کا آلہ بن چکا ہو اور سیٹھوں کے کالی دھن کو سفید بنانے کا آسان راستہ بنا ہو، ہمیں سوشل میڈیا کے سنجیدہ استعمال پر مجبور کرتا ہے۔
سوشل میڈیا کا انقلابی اور مثبت استعمال عرب سپرنگ سمیت لاتعداد مواقعوں پر ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جب ہمارا مقابلہ عالمی قوتوں سے ہو تو پھر تو یہاں بھی آزادی نہیں لیکن کہاں عالمی قوتیں اور کہاں دو وقت کی روٹی کے چکر میں ذلیل ہونے والی پاکستانی قوم کا مقابلہ، چلو اس کو اپنے ملک کے حالات کو بہتر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہے۔
بات کہاں سے کہاں چلی گٸی۔ اپنی تحریر کے عنوان کی طرف آتا ہوں۔ اسلام آباد ہاٸی کورٹ بار کے زیر اہتمام 'رجیم چینج' اور اس کے پاکستان پر اثرات کے عنوان سے سابق وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پی ٹی آٸی کے ہم خیال وکلا اور صحافیوں سمیت لاتعداد لوگوں نے شرکت کی۔
اس سیمینار میں جذباتی تقاریر کی گئیں لیکن اس شور وغوغا میں ایک سابق فوجی افسر، سیاستدان اور بزرگ کالم نگار ایاز امیر نے جو تقریر کی تھی وہ سنجیدہ اور معنی خیز تھی۔
چونکہ ایاز امیر صاحب فوج میں چار پانچ سال ایک افسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں لہذا وہ تو غدار ہو ہی نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی پاکستان میں جمہوری حکومت بنتی ہے تو اگر یہ دو تین لوگوں (جنہیں آپ بخوبی جانتے ہیں) کے مزاج اقدس پر گراں گزرے یا انہیں ویسے ہی ذہن میں کوٸی خیال آجائے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ یہ کرنا ہے تو وہ کر لیتے ہیں اور ان میں باقی استعمال ہونے والے سیاستدان بیچارے تو آلہ کار ہیں۔
انہوں نے 'ایکسٹینشن خان' کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب آرمی چیف کی تین سال کی مدت میں مزید تین سالہ کا اضافہ اور اگر حالات خراب ہوں (جو پاکستان میں 70 سال سے ہیں) اس میں ایک اور سال کا اضافہ کرنا مطلب ایک آرمی چیف کو سات سال رکھنے کا سہرا بھی آپ کو جاتا ہے۔ (شرم کی بات تو یہ ہے کہ باٸیس کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کا دورانیہ پانچ سال ہے جو گذشتہ ستر سال سے ایک وزیراعظم بھی پورا نہ پایا)۔
انہوں نے کہا جناب والا آپ وزیر اعظم بنے لیکن یہ سات سال والا ورثہ آپ نے چھوڑا ہے اور جو یہاں پر آئے گا اس کی نظریں چھ سال پر ہونگی۔ ایاز امیر صاحب سابق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں بڑے بڑے آفیشلز آتے ہیں، کام والے آتے ہیں لیکن اتنا عشق کہاں پر کہ ایک ہی شخص پر سیکورٹی معاملات، سیاسی معاملات سمیت تمام کام چھوڑا جائے اور جو کھلواڑ ملک کے ساتھ ہو چکا ہے، اس میں ماشاء اللہ آپ کا بھی بڑا کنٹریبیوشن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو آپ کے خلاف سازش ہوٸی تھی، اس سے پہلے آپ نے پاکستان کو 'پراپرٹی ڈیلرز' کے حوالے کر دیا تھا اور طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر آپ نے جو تصاویر لگائی ہیں علامہ اقبال اور قاٸداعظم کی، ان کی جگہ دو پراپرٹی ڈیلرز کی تصاویر لگاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے آپ کو دھکا لگا اور لات ماری گٸی ہے تو ماشاء اللہ آپ بھی چی گویرا بن گئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ ہمیشہ چی گویرا ہی رہیں۔ جس طرح آپ نے پاکستان کے پراپرٹی سیکٹر کی حوصلہ افزاٸی کی، آدھی زمین ہمارے راولپنڈی والے بھاٸیوں نے کھالی ہے۔ پاکستان کی زمین ختم ہو جاٸیگی لیکن ان ڈی ایچ ایز کی خواہشیں ختم نہیں ہوگی۔
عمران خان اپنے مزاج کے برعکس ہنسی خوشی سن رہے تھے جو کہ ایک مثبت ردعمل اور جمہوری لیڈر بننے کی طرف پہلا قدم ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہی جمہوری رویہ خان صاحب اپنے دور اقتدار میں دکھاتے۔
گذشتہ روز ایاز امیر صاحب نے اپنی اس بے باکی کی قیمت نامعلوم افراد کے ہاتھوں تشدد سہہ کر ادا کی اور نہ جانے اور کتنی قربانی دینی ہوگی۔
اس میں کوٸی شک نہیں کہ پاکستان میں عوام کے پاس جی ایچ کیو کی سیاسی نرسری میں پالے گئے پیمپرڈ لیڈرز کے علاوہ آپشن ہے ہی نہیں اور جو آپشنز ہے ان میں نسبتاً بہتر عمران خان ہے۔
نوجوان بھی زیادہ انہی کو فالو کرتے ہے اور آنکھ بند کرکے ان پر یقین کرتے ہیں لہذا وہ امریکہ کا نعرہ سیاسی مقاصد کے لئے تو بے شک لگا لیں لیکن قوم کو ان لوگوں سے آزادی دلائیں جنہوں نے حقیقت میں ان کو غلام بنایا ہے۔
چی گویرا تو بہت بڑا آدمی اور نڈر تھا۔ ان کے قول وفعل میں تضاد بھی نہیں تھا یا باالفاظ دیگر منافق نہیں تھا اور نہ ہی اقتدار پسند تھا۔ ان جیسے قد آور لیڈر سے کسی 'دیسی' لیڈر کا کیا موازنہ لیکن آپ وہی عمران خان بن جائیں جنہیں قوم نے تقریروں میں سنا ہے تو بھی اس قوم کا بہت مقدر بدل سکتا ہے۔
ٹھیک ہے، اس گندے اور غلیظ نظام میں اپنا مقام بنانے کے علاوہ کوٸی اور راستہ بھی نہ تھا لیکن خان صاحب یاد رکھیں جس طرح نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا اور وہ خود ساختہ انقلابی بن کر نام لے لے کر پکارتا تھا آپ اقتدار کے لئے وہ 'فارمولا' استعمال نہ کریں کیونکہ قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
آپ نے دنیا دیکھی، وزارت عظمٰی کے منصب پر قائم رہے۔ اب ان چھوٹی سوچوں سے نکل کر نظام کی حقیقی تبدیلی کے لئے کوشش کریں جو عوامی مقبولت آپ کو حاصل ہے، وہ پاکستان کی عظمت اور آگے لے جانے کے لئے استعمال کریں۔ قدرت نے آپ کو یہ موقع دیا ہے اور ماحول بھی سازگار ہے۔
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ واقعی نظام کی تبدیلی والے عظیم مقصد کو چنتے ہیں یا پاکستان کے نماٸشی اور کٹھ پتلی وزیراعظم کی کرسی کو چننا ہے، جس کی اوقات آپ نے 9 اور 10 اپریل کی درمیان والی شب دیکھی تھا جب قوم نے آپ کو ایک ڈاٸری لے کر وزیراعظم ہاوس سے نکلتے دیکھا تھا۔