عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد شہر اقتدار پہنچا تو کرونا کے کیسز پر نظر پڑی، ویسے الحمد اللہ رمضان کے بابرکت مہینے میں بالکل اپنے آپ کو کرونا سے اس طرح بے خبر رکھا جس طرح اس وبا کا نام تو کبھی سنا ہی نہیں تھا۔ خیر پہلی مرتبہ جب گھر سے باہر نکلا تو یوں محسوس ہوا جیسے دنیا واپس معمول پر پلٹ چکی ہے، روٹین پر سب کچھ آچکا ہے، لوگ بلا خوف و خطر ایک دوسرے سے مل بھی رہے تھے، وہی ہاتھوں کا ملانا گلے ملنا، ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا گپ شپ سے اپنے آپ کو انٹرٹین کرنا، بالکل یوں محسوس ہورہا تھا کے شائد اس عظیم قوم نے بالآخر کرونا کو شکست دے ہی دی۔ میں دلی خوشی محسوس کرتا ہوا اور اور نغمہ ’پاکستانی تجھے سلام‘ گنگناتا ہوا گھر کی طرف واپس روانہ ہوا۔
گھر پہنچ کر خبرنامہ دیکھا تو وہ خوشی، غم و رنج و مہن میں تبدیل ہو گئی، تمام امیدیں یکسر ٹوٹ گئیں، اور دل ہی دل میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ کب ہم صحیح معنوں میں شعور کی ڈگری حاصل کریں گے، کب ہم خود کو کم کپڑوں والے ماڈرن ازم کے بجائے صحیح ماڈرن ازم کی طرف لے کر جائیں گے۔ خیر اگر یہ بحث جاری رہی تو اصل موضوع سے ہم ہٹ جائیں گے، اس پر پھر کبھی بات سہی۔
عید کے بعد کرونا کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج سے چند روز قبل ایک ہی دن میں 78 اموات واقع ہو چکی ہیں، اس طرح کُل اموات 1500 سے تجاوز کر چکی ہیں، کل کیسز کی تعداد بھی 70 ہزار کو پہنچ چکی ہے۔ اسی گراف کو دیکھتے ہوئے میں نے ایک قریبی ڈاکٹر دوست جو کہ پمز اسپتال میں خدامات سر انجام دے رہے ہیں اور آج کل کرونا وارڈ مریضوں کی تیمارداری میں مصروف ہیں کے پاس چند سوالات لے کر پہنچا۔ ملاحظہ کیجیے میرے سوالات اور اُن کے جوابات:
سوال 1: ڈاکٹر صاحب حالات کیسے ہیں؟
جواب: میں تو ٹھیک ہوں لیکن کرونا کے حالات انتہائی خطرناک ہیں، سو سے زائد ڈاکٹرز متاثر ہو چکے ہیں، کل میری ڈیوٹی تھی۔ چار کرونا کے مریض چل بسے ہیں، اسپتال میں جگہ ہی نہیں ہے، اور ایک مریض کی موت وینٹی لیٹر نہ ملنے کی وجہ سے ہو چکی ہے۔
سوال 2: ڈاکٹر صاحب کرونا سے کتنے ہزار ڈالرز کمائے ہیں؟
جواب: یہ بہترین سوال پوچھا۔ آج کل ان باتوں کا چرچہ ہے کہ کرونا سے پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ وہ جگہ مجھے بھی دکھاؤ تاکہ میں بھی کچھ کماؤں تاکہ ایک گاڑی لے سکوں۔ اب تک میرے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں ہے۔ ان باتوں میں دور دور تک کوئی صداقت نہیں، لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ خدارا اس وبا کا مذاق نہ بنائیے، ہم کوئی پاگل نہیں ہیں، ہمیں آپ کی جان عزیز ہے۔ اور ہم نے بھی اللہ کو جواب دینا ہے۔
سوال 3: ڈاکٹر صاحب ڈاکٹرز کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
جواب: بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ مثلاً کرونا کٹس تو آئی سی یو اور آئسولیشن وارڈز میں موجود ہیں البتہ دوسرے وارڈز میں نہیں ہیں۔ کٹس کی کوالٹی بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز متاثر ہو رہے ہیں۔
سوال 4: وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ظفر مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کی تنخواہیں ہم نے ڈبل کی ہے۔ واقعی؟
جواب: جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہمیں تو اپنی تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہیں۔ وہ کوئی ایک ڈاکٹر دکھائیں جس کو ڈبل تنخواہ ملی ہو اب تک۔
سوال 5:- حکومتی اقدامات سے ڈاکٹرز مطمئن ہیں؟
جواب: بالکل بھی نہیں۔ ظفر مرزا کی وہ پالیسی ہے جس سے نہ وہ خود واقف ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، اور نہ ڈاکٹرز کو معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں وہ سب اچھا ہے کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں جب کہ حالات اس سے زیادہ سنگین ہیں۔ حکومت شروع دن سے ہی نااہلی دکھا رہی ہے، اور اس نااہلی کا نتیجہ اب نکل رہا ہے۔
سوال 6: عوام ڈاکٹرز کو کیوں چور کی نظروں سے دیکھ رہی ہے؟
جواب: یہ بتاتے ہوئے مجھے بھی انتہائی تکلیف ہو رہی ہے کہ عوام شک کے نظروں سے ہمیں دیکھ رہی ہے، وہ سمجھ رہے ہیں کہ ڈاکٹرز علاج کے بجائے ہمارے مریضوں کو مار رہے ہیں، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ کاش آپ ہماری جگہ ہوں۔ آج کل ہر دوسرا بندہ ایکسپرٹ بنا بیٹھا ہے، اگر کسی بیمار کو علاج بتاؤ تو آگے سے وہ گوگل کر کے پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس کے تو یہ سائڈ ایفکٹس ہیں۔
عوام کو اب پہلے سے زیادہ محتاط ہونا پڑے گا، ورنہ حالات انتہائی بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، کل میرا ٹیسٹ منفی آیا ہے۔
اس پر ہماری کرونا گفتگو ختم ہوئی اور ارطغرل پر بحث و مباحثہ جاری رہا۔ آخر میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا لیکن خیر وقت آنے پر وہ بیان کیا جائے گا۔
نعمان خان ضلع باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ فنِ مباحثہ اور مذاکرہ میں اپنی کامیابی کا لوہا منوا چکے ہیں۔