پاکستان میں سوشل میڈیا کنٹرول نہ ہوا تو بیرون ملک بیٹھ کر ملک کے خلاف سازش ہو سکتی ہے: لاہور ہائی کورٹ

پاکستان میں سوشل میڈیا کنٹرول نہ ہوا تو بیرون ملک بیٹھ کر ملک کے خلاف سازش ہو سکتی ہے: لاہور ہائی کورٹ
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کنٹرول نہ ہوا تو بیرون ملک بیٹھ کے پاکستان کے خلاف سازش کی جا سکتی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو نہ ہٹانے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر کوئی بیرون ملک سے نامناسب مواد اپ لوڈ کرے تو اسکا ٹرائل کیسے ہو گا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قانون موجود ہے اگر کوئی بیرون ملک بیٹھ کر بھی کچھ اپ لوڈ کرتا ہے تو اسکے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک آدمی اگر برطانیہ میں قتل ہو جاتا ہے تو پاکستان میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ فیس بک ،ٹویٹر ،انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا کنٹرول نہ ہوا تو بیرون ملک بیٹھ کر بغاوت کے لیے ابھارا جا سکتا ہے اور پاکستان کے خلاف سازش کی جا سکتی ہے۔ اس پر وکلا کے دلالئل جاری تھے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سماعت آئندہ ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے وکلا کو تیاری کرنے کی ہدایت  جاری کی۔

کیا پاکستان میں سوشل میڈیا مکمل طور پرآزاد ہے؟

21 جنوری کی تاریخ سے جاری کردہ حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق حکومتِ پاکستان ایک قومی رابطہ کار کا دفتر بھی قائم کرے گی جو کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے سے رابطے میں حکومت کی نمائندگی کرے گا۔’شہریوں کو آن لائن نقصان سے بچاؤ کے قواعد' پاکستانی پارلیمان کی جانب سے 2016 میں منظور کیے جانے والے پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ وہی قانون ہے جس کے تحت پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسے مواد کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جو قومی سلامتی کے منافی ہو یا جس میں اداروں کی تضحیک کی گئی ہو۔

اب تک سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کے چیدہ چیدہ نکات

بی بی سی کی جائزہ رپورٹ میں ان تمام قوانین کے ایک نچوڑ کو پیش کیا گیا یے۔ اس کے مطابق:

1) کسی بھی آن لائن مواد کو اگر مجاذ حکام پاکستان کے قوانین کے مخالف پائیں تو سوشل میڈیا کمپنی پر لازمی ہوگا کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس کو حذف کریں۔ ہنگامی صورتحال میں سوشل میڈیا کمپنی کو ایسا چھ گھنٹوں میں کرنا ہوگا۔ نیشنل کورڈینیٹر ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ ہنگامی صورتحال ہے یا نہیں۔

2) کسی بھی آن لائن مواد کے حوالے سے قومی رابطہ کار کی ہدایات کو سوشل میڈیا کمپنی کے اپنے قواعد و ضوابط پر ترجیح حاصل ہو گی۔

3) سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی، اور قومی سیکیورٹی کی حساسیت کو سمجھیں گی۔

4) سوشل میڈیا کمپنیاں ایسا نظام بنائیں گی جس کے ذریعے کسی بھی لائیو سٹریمنگ کے دوران کوئی ایسا مواد نشر نہ کر دیا جائے جو کہ پاکستان کے کسی قانون کے خلاف ہو۔

5) سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنا دفتر بنائیں جس کا مستقل اندراج شدہ پتا ہو۔

6) سوشل میڈیا کمپنیاں ان قوانین کے اطلاق سے بارہ ماہ کے اندر اندر پاکستان میں اپنے سرورز بنائیں جو کہ پاکستانی حدود میں صارفین کی معلومات اور ڈیٹا سٹور کریں۔

7) سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستانی شہریوں کا چاہے وہ بیرونِ ملک ہی کیوں نہ مقیم ہوں، ایسا تمام آن لائن مواد حذف یا آن لائن اکاؤنٹ کو معطل کر دیں گی جو کہ فیک نیوز ہو، اس میں ہتکِ عزت کی گئی ہو یا پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی اور قومی سلامتی کی حساسیت کے خلاف کوئی بات ہو۔

8) پاکستان کے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 29 کے تحت بنائی گئی کسی بھی تفتیشی اتھارٹی کو سوشل میڈیا کمپنی تمام قسم کی معلومات ایک واضح فارمیٹ میں فراہم کریں گی۔

9) اگر سوشل میڈیا کمپنی ان قوانین کی پاسداری نہیں کرتی تو قومی رابطہ کار کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ملک میں مکمل طور بند کر دیں۔