Get Alerts

محمود خان کا بیان کہ KP فورس لاؤں گا، امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو؟

محمود خان کا بیان کہ KP فورس لاؤں گا، امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو؟
محترم نصرت جاوید نے عمران خان حکومت کے خاتمے کے قریب دو ماہ بعد ایک مرتبہ پھر ٹی وی چینلز پر جلوہ گر ہونا شروع کر دیا ہے اور آتے ہی بقول شخصے 'پھٹے چک دتے' ہیں۔ ہم نیوز پر محمد مالک کے پروگرام میں اپنے مخصوص انداز میں نصرت جاوید نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے اس بیان پر شدید تنقید کی کہ اگلی بار وہ خیبر پختونخوا کی فورس لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ اب تنقید تو سبھی کر رہے ہیں لیکن استاد تو پھر استاد ہی ہوتے ہیں۔ ابھی تک یہ نکتہ کسی کو ٹی وی پر اٹھاتے نہیں دیکھا تھا کہ یہ لاڈلے کی جماعت کے 'وسیم اکرم پلس پشتون ایڈیشن' نے نہ دیا ہوتا بلکہ ان کی جگہ اے این پی کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟

نصرت جاوید نے کہا کہ 'مجھے ایک بات بتاؤ، آج جو بیان محمود خان نے دیا ہے کہ کے پی کی فورس لڑے گی، فرض کرو یہ امیر حیدر ہوتی نے دیا ہوتا۔ آپ نے شجرہ نسب نکال لینا تھا یہاں بیٹھے ہوئے۔ یہ باچا خان کا پوتا، یہ ولی خان کا بھانجا، یہ اسفند یار ولی کا بھانجا، ارے یہ تو خاندانی 'پختونستانیے' ہیں، پکڑو انہیں۔ یہاں پہ 23 مارچ کو حضور آئین منظور ہونے کے بعد لیاقت باغ میں جلسہ ہو رہا تھا۔ کتنی لاشیں لے کر ولی خان گئے تھے؟ اس کے باوجود کہاں گرفتار ہوئے؟ حیدر آباد ٹربیونل بھگتا نا؟ اور کتنی مرتبہ خان عبدالولی خان نے، ان کے بیٹے نے، قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھایا پاکستان سے وفاداری کا، اس کے باوجود غداری کا داغ نہیں اترا'۔

اب بتائیے ہے کوئی جواب؟ میں نے پورا پروگرام نہیں دیکھا لیکن جو کلپ سوشل میڈیا پر نظر آیا، اس میں بڑے بڑے جیّد محبِ وطن بیٹھے تھے۔ محمد مالک صاحب بھی تھے۔ بالکل ساتھ والی کرسی پر ہی غالباً عارف حمید بھٹی صاحب بھی براجمان تھے۔ دونوں ہی احباب جواب تو دینا چاہتے ہوں گے لیکن اب ان تاریخی حقائق کو کون جھٹلا سکتا ہے؟ کیسے کہہ دیں کہ باچا خان اور خان عبدالولی خان کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا جس کا ذکر نصرت جاوید کر رہے ہیں۔ جو کچھ بھابڑہ بازار میں ہوا۔ جو حیدر آباد سازش کیس میں ہوا۔ ان کی سیاست کو ختم کرنے کے لئے جیسے جیسے الزامات لگے، ان تمام قسموں، وعدوں، حلفوں کے باوجود جو پارلیمان کے مقدس ہاؤس تک میں اٹھائے گئے، ان کی حب الوطنی کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا کیونکہ یہ محض صوبائی خود مختاری کی بات کرتے تھے۔ اسی صوبائی خود مختاری کی جو اٹھارھویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیار کے برتے پر محمود خان وفاق کو تڑیاں لگاتے ہیں۔

https://twitter.com/muhemran/status/1532096959364104193

نصرت جاوید نے خان عبدالولی خان اور ان کے بیٹے کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پر حلفِ وفاداری اٹھانے کی بات کی۔ باچا خان نے بھی دستور ساز اسمبلی کا حلف اٹھایا تھا۔ 5 مارچ 1948 کو حلف اٹھانے کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے باچا خان نے کہا "ہمارے پٹھانستان کا کیا مطلب ہے؟ میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔ اس صوبہ کے لوگ سندھی کہلاتے ہیں اور ان کے ملک کا نام سندھ ہے۔ اسی طرح بنگالی ہیں اسی طرح شمال مغربی سرحدی صوبہ ہے۔ ہم سب ایک ہیں اور ہماری زمین پاکستان کے اندر ہے۔ ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ محض ملک کا نام لینے سے ہی پتہ چل جائے کہ یہ پختونستان کی سرزمین ہے۔ کیا یہ شریعت اسلامی کے تحت گناہ ہے؟ ہم پختونستان چاہتے ہیں اور ہم ڈیورنڈ لائن کے اِس جانب رہنے والے سارے پٹھانوں کو پختونستان میں متحد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔ اگر آپ دلیل دیں گے کہ اس طرح پاکستان کمزور ہو جائے گا تو میں کہوں گا کہ پاکستان 'ایک علیحدہ اکائی' کے وجود میں آنے سے کمزور نہیں ہوگا۔ یہ مضبوط ہوگا۔"

تاریخ کا جبر دیکھیے کہ جنہیں ساری زندگی شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے وہ تو اپنے حلف پر مرتے دم تک قائم رہے۔ ان کے جانشین بھی اسی زمین کے وفادار ہیں۔ اس کی خاطر ان کے خدائی خدمتگار جانیں دیتے چلے جاتے ہیں، وفا کی قیمت خون سے چکاتے چلے جاتے ہیں مگر اس بھاری قیمت کے عوض ملنے والی خودمختاری کے بل پر دھمکیاں وہ دیتے ہیں جنہیں ہمیشہ اپنا سمجھا، جن کے لئے ہر ایک پر شک کی انگلیاں اٹھائیں، ہر ایک کو غدار قرار دیا۔ آج وہی کہتے ہیں وفاق پر فوج کشی کریں گے۔

ان کے سرخیل تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہیں۔ فرمایا اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے (یعنی انہیں اقتدار میں واپس لانے کے لئے ریاستی نظام کو مزید کچوکے نہ لگائے) تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا، فوج تباہ ہو جائے گی، ایٹمی اثاثے لے لیے جائیں گے اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔

اب بھی وقت ہے۔ غداری کے کھیل کھیلنا بند کیجیے۔ اب تو سمجھ جائیے۔ اب تو آپ پر بھی میر جعفر اور میر صادق ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں اور لگانے والے وہ پودے ہیں جنہیں آپ نے اپنا خونِ جگر دے کر سینچا تھا۔ اس ملک کے شہریوں پر بھروسہ کیجیے۔ ان کے حوالے ملک کیجیے اور واپس اپنے کام پر لگیے۔ رہ گئے یہ وسیم اکرم پلس اور خود ان کے کپتان تو اتنا بتائے دیتے ہیں کہ آپ کی پشت پناہی نہ ہو تو ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، ملک آئین کے مطابق چلنے دیجیے، یہ یوں ہی سسک سسک کر اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.