کلثوم نواز کا بہشت سے بیٹی مریم کو خط! 

کلثوم نواز کا بہشت سے بیٹی مریم کو خط! 
پیاری بیٹی سدا خوش رہو۔ ماں دنیا میں نہ ہو ، پھر بھی اولاد سے باخبر  ، اسکے لیے فکرمند اور دعا گو رہتی ہے۔ آج  میں تمہیں کچھ اہم باتیں بتانا چاہتی ہوں ۔ سب سے اہم یہ کہ دوست اور دشمن کی خوب پہچان رکھو اور دونوں کے شر سے محفوظ رہو۔ تم سوچوں گی کہ دوست اور شر! جی ہاں۔ دشمن جب دوست کا روپ دھارن کر لے تو اس کے شر کے آگےسب شر ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔

مورخہ 25 فروری سن 2021 کو سینئر خوشامدیوں نے تمہیں اور قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ میری پیاری سہیلی بےنظیر بھٹو کے بعد فوج سے سب سے بڑی جنگ تم نے لڑی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم اس نو وارد مشکوک کردار جس کا نام علامہ ڈاکٹر جاہل خود بخود ہے کو اپنا دوست سمجھو، میں تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔

دنیا کے عظیم ترین انسان بھی خوشامدیوں سے اپنے آپ کو نہ بچاسکے اور یوں زوال کی پستیوں میں ہمیشہ کیلئے دفن ہو گئے۔ خوشامد ایک ایسا زہر ہے جو انسان شوق سے اپنے ہاتھوں پینا پسند کرتا ہے۔ کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جن کے ہوتے ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پس ڈاکٹر جاہل خودبخود  اک ایسا ہی کردارہے۔

بٹیا برا نہ ماننا۔ ابھی تمہیں سیاست کے میدان میں اترے جمعہ جمعہ آٹھ دن پورے نہیں ہوئے اور اس بے درباری بھانڈ نے تمہیں بے نظیر بنا دیا۔ بہشت میں میری سب سے بہترین دوست اور غمخوار  بے نظیر ہی ہیں۔ یہ وہ ہی عظیم لڑکی ہے جس کی کردار کشی کرنے میں تمہارے ابانے کوئی کسر نہ چھوڑی۔  جو مصائب اس بہادر لڑکی نے سہے ان کا تو تم پر ابھی تک سایہ بھی نہیں پڑا۔ اس کے والد نے ایک فوجی آمر کے آگے سر جھکانے کے بجائے پھانسی کے پھندے کو گلے کا ہار بنایا۔ جبکہ تمہارے ابا کا سامنا جب آمر سے ہوا تو وہ پتلی گلی سےبمعہ اہل و  عیال سعودی عرب نکل گئے اور بادشاہ کے قدموں تلے پناہ پائی۔

اس بہادر لڑکی کی ماں نے فوج سے لڑتے لڑتے اپنےلہو سے  اس زمین کو سیراب کیا ۔ مجھے یہ سعادت نصیب نہ ہوئی۔ ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ میں ان جیسی بہادر نہ تھی اور کبھی ہو بھی نہ سکتی تھی۔ ہم تو ان ہی فوجی آمروں کے جوتے چاٹتے سیاست کے ایوانوں میں داخل ہوئے تھے۔ ہم تو کاروباری لوگ تھے۔ ہمارے پاس کوئی نظریہ تو تھا نہیں۔ اگر کوئی تھا تو وہ یہ ہی تھا کہ رام رام چپنا پرایا مال اپنا۔ جنرل ضیاء الحق کی چاپلوسی کیے بنا تمہارے ابا کیسے سیاست کے میدان میں اتر سکتے تھے۔ ہمارے تمام سیاسی اور مالی اثاثے ان ہی جرنیلوں کی جوتیوں کا صدقہ ہیں۔

اور بِٹیا کون سی جنگ لڑی تم نے؟ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی معیاد ملازمت میں توسیع کے بل پر تو تم اور تمہاری پارٹی نے بلا چوں چراں دستخط کر دیے۔ جرات کے سلام کے  حقدار تو صرف محسن ڈاور اور علی وزیر ہیں جنہوں نے اس بل کیخلاف ووٹ ڈالا۔

بیٹی میں اب اس دنیا میں نہیں لہذا دروغ گوئی اور مصلحت بینی سے میرا اب کچھ لینا دینا نہیں۔ سچ بولنا میرے لئے جتنا سہل اب ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ تمہاری سیاست کا مقصد بھی صرف اتنا ہی ہونا چاہیے کہ تم بھی پتلی گلی سے لندن کھسک لو۔ ہم کاروباری لوگ ہیں۔ جنگ و جدل کبھی بھی ہمارا نصب العین نہیں رہا اور نہ رہے گا۔ جنگ تو بھٹو صاحب، انکی بیگم، انکی بیٹی اور بیٹوں نے لڑی۔ جیلیں کاٹیں، کردار کشی برداشت کی۔ جانیں قربان کیں۔  ہم تو انکے پیروں کی دھول بھی نہیں۔ ہم صرف ابن الوقت تھے۔ اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔  فوج کے جوتے چاٹے بنا ہمار الو سیدھا نہیں ہونے کا۔ یہ بات تمہیں چچا شہباز بھائی سے بہتر کوئی نہ سمجھا پائے گا۔

اور بیٹی ایک بار پھر سمجھاتی ہوں کہ خوشامدی ٹولوں سے دور رہوں۔ ان کی جی حضوری  نے ہی تمہارے ابا کے تعلقات فوج سے خراب کئے۔ اس چمچے کی حقیقت تو تمہیں معلوم ہی ہے۔ کرپشن کے کیس میں جیل بھی کاٹ چکا ہے۔ ٹاک شوز میں بنا تحقیق دعوے اور انٹ شنٹ بکواس  اس کی ساکھ کو تباہ کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ اس کو سرزنش کے علاوہ جرمانہ بھی کر چکی ہے۔ اسکا مسئلہ یہ ہے کے بھونکے بنا رہ نہیں سکتا۔ اسے معلوم ہے کہ اگلی حکومت تمہاری ہو گی۔ اب ہی سے اس نے تمہارے تلوے چاٹنے کا عمل شروع کر دیا ہے تاکہ وقت آنے پر تم سے انعام پاوے۔

 

اچھا بیٹی اب اجازت ۔  تمہاری والدہ کلثوم!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔