ان دنوں ہر شخص پاکستان سپر لیگ کے بخار میں تپ رہا ہے۔ گاڑی چلائیں تو ایف ایم پر نشر ہونے والے مختلف کمرشلز میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی انعامی اسکیم جا کر جڑ جاتی ہے پی ایس ایل سے، ٹی وی آن کریں تو میچ نہ ہو بھی ہو تومختلف مصنوعات کے بارے میں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کا استعمال آپ کو فلاں کھلاڑی کی طرح ’پرفیکٹ‘ بناسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر توسمجھیں طوفان برپا ہے۔ کوئی سرفراز احمد کے غصے کو طنز کا نشانہ بنا رہا ہے تو کوئی یہ مشورہ دے رہا ہے کہ جب ٹاس جیت کر دوسری دوسری اننگ میں بیٹنگ کرنے والی ہی ٹیم جیت رہی ہے تو پانچ گھنٹے کی مشقت کرانے کا بھلا کیا فائدہ۔ بس جو ٹاس جیتے اسے ’ میچ ونر ‘ قرار دے دیا جائے۔
ہر پاکستانی کی طرح کرکٹ ہماری رگ رگ میں بھی دوڑ رہی ہے تو بھلا ہم کہاں دور رہ سکتے ہیں کرکٹ اور پی ایس ایل کے سحر سے۔ایسے میں ایک پرانے اسپورٹس اینکر دوست (نام صیغہ راز میں رہے گا کہیں اور لوگ ان سے تقاضے نہ شروع کردیں) نے میچ دیکھنے کے لیے ٹکٹس کا تحفہ دے دیا۔ اب میچ تھا کراچی کنگز اور لاہور قلندر کا۔جسے بیشتر افراد بریانی بمقابلہ پائے یا مرغ چھولے کا بھی نام دے رہا تھا۔ ٹی شرٹس لاہور قلندر کی اس لیے زیب تن کی کیونکہ لاہور قلندر کی ٹیم پچھلے پی ایس ایل سے ہی تگڑی لگ رہی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں مستقل مزاجی ہے۔ لاہور قلندر کی انتظامیہ نے دیگر فرنچائز کی طرح بڑے ناموں کا تعاقب نہیں کیا۔ بلکہ جو پچھلے سیزن میں تھے، اس بار بھی کم و بیش وہی رہے۔
اتوار کو ہونے والے اس میچ کے لیے صاحبزادے کو ساتھ لیا اور اسٹیڈیم کی جانب یہ ننھا منا سا قافلہ رواں دواں ہوا۔ معلوم ہوا ہے کہ حکیم محمد سعید گراؤنڈ پر گاڑی پارک کرنی ہوگی، جہاں سے پی سی بی کی شٹل سروس مطلوبہ انکلوائزر تک لے جائے گی۔ گھر سے نکلتے ہوئے جو دوست میچ کا لطف اٹھا آئے تھے، اُن سے دریافت کیا تھا کہ کیا کیا چیزیں لے جانی ہیں تو انہوں نے شناختی کارڈ اور بیٹے کا اوریجنل ’ب فارم‘ ساتھ رکھنے کی تاکید کی تھی۔
گاڑی حکیم محمد سعید گراؤنڈ پر پارک کی تو انتہائی مستعد اورپھرتیلے ٹریفک اہلکار وں نے پارکنگ میں بھرپور رہنمائی کی۔ قطار بنا کر شٹل سروس تک رسائی کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ تلاشی اور تصدیق کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ واک تھرو گیٹ تھے، جن سے گزر کر اہلکاروں تک پہنچے تو جامہ تلاشی سب سے پہلے لی گئی۔ ٹکٹس کو اسکن کیا گیا۔ پھر بیٹے کے ’ب فارم‘ اور ہمارے شناختی کارڈ کی تصدیق ہوئی۔ پی سی بی کے رضا کاروں نے واضح طورپرکہہ رہے تھے کہ پان، سگریٹ، چھالیہ، گٹکا، یہاں تک ماچس تک اسٹیڈیم لے جانے کی اجازت نہیں۔ اگر ان میں سے کوئی چیز ہے تو جمع کرادیں۔ اس مرحلے کے بعد اب اعلیٰ قسم کی شٹل سروس تیار تھی۔ جس پر براجمان ہونے کے بعد اس کے بھرنے کا انتظار ہوا۔ چند ہی لمحے میں یہ کام بھی ہوگیا تو شٹل سروس تیز رفتاری کے ساتھ اسٹیڈیم کی طرف بڑھ رہی تھی۔
ہمارا مطلوبہ انکلوائزر آیا تو اترنا پڑا۔ گیٹ پرایک بار پھر پولیس اہلکاروں نے تلاشی لی۔ جس کے بعد ایک جانب بڑھا دیا۔ جہاں پی سی بی کے رضا کار اسمارٹ فون ہاتھ میں لیے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ٹکٹس دکھائے گئے جنہیں ایک بار پھر اسکن کیا گیا۔ اس کے بعد ہماری اور بیٹے کی الگ الگ تصاویر اسی اسمارٹ فون سے اتاری گئیں۔ شناختی کارڈ نمبر کا اندراج ہوا۔ اس کے بعد بیٹے کے ’ب فارم‘ کا۔۔ ایک بار پھرہدایت کی گئی کہ اگر کوئی قابل ممنوعہ چیز ہے تو جمع کرادیں۔ہم نے یقین دہانی کرائی ایسی کوئی چیز نہیں تو آگے بڑھا دیا گیا۔ جہاں چاک و چوبند اہلکاروں نے ٹکٹس دیکھا اور پھر تلاشی کے بعد ٹکٹس پر اپنے آٹوگراف کی چڑیا بٹھا کر اندر جانے کا حکم دیا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ یہ نیشنل اسٹیڈیم ہمارے لیے نیا نہیں تھا۔ یہ وہی اسٹیڈیم تھا، جب زمانہ طالب علمی میں ہم کالج سے بھاگ کر میچ دیکھنے کے لیے یہاں آتے۔ طریقہ کار یہ ہوتا کہ ایک دوست ٹکٹ خریدتا اور پھر تماشائیوں کے اسٹینڈ کے اوپری حصے پر جا کر وہی ٹکٹ کچھ اس مہارت سے باہر کھڑے دوستوں کی طرف اچھالتا کہ ایک ایک کرکے سب ایک ہی ٹکٹ پر یہ طریقہ اختیار کرکے اسٹیڈیم کے اندر ہوتے۔اُس زمانے میں اس قدر پہرے نہیں لگے ہوتے تو یہ کام تو سمجھیں بائیں ہاتھ کا بن گیا۔
میدان میں میچ دیکھنے کا اُس زمانے میں سب سے بڑا نقصا ن یہ ہوتا کہ ذرا سی کھلاڑیوں سے نظر ہٹتی تو کوئی آؤٹ یا چوکہ چھکے مارنے والا شارٹ اوجھل ہوجاتا۔ اب آج کی طرح میدان میں قدآور ٹی وی اسکرین تو نصب نہیں تھیں کہ ایک ایک گیند کو ری پلے میں دیکھا جاسکے۔ اسی لیے بڑی مشکل ہوجاتی۔ رات میں اگر میچ کی جھلکیاں ٹی وی پر نشر ہوتیں تو پھر پتا چلتا کہ فلاں کھلاڑی کس طرح آؤٹ ہوا تھا۔
ہم نے اس اسٹیڈیم میں سچن ٹنڈولکر اور وقار یونس کو پہلی بار ٹیسٹ کھیلتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہ بات ہے 1989کی جب بھارتی کرکٹ ٹیم سری کانت کی قیادت میں پاکستان آئی تھی۔پھر اسی دورے کے دوران کراچی میں کھیلے جانے والے ون ڈے میچ میں پاکستان کے ابتدائی کھلاڑی رمیز راجا، سلیم ملک اور جاوید میاں داد اوپرتلے 28 رنز پر آؤٹ ہوگئے تو تماشائیوں کا میٹر شارٹ ہوگیا۔ تماشائیوں کی ہنگامہ آرائی کے باعث میچ بار بار روکا گیا۔ جبکہ وکٹ پر عمران خان اور شعیب محمد موجود تھے۔جاوید میاں داد نے تماشائیوں کو پر سکون اور پرامن ہو کر میچ دیکھنے کی پورے میدان میں چکر لگا کر اپیل بھی کی تھی لیکن یہ میچ تماشائیوں کی ہلڑ بازی کی وجہ سے پاکستان کی ادھوری اننگ تک ہی محدود ہو کر وقت سے پہلے ختم کردیا گیا۔
اسی طرح وہ میچ بھی کون بھول سکتا ہے جب انضمام الحق نے آخری وکٹ پر آسٹریلیا کے خلاف میچ جیتا تھا،اس شاندار جیت کے موقع پر ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ایک زمانے میں نیشنل اسٹیڈیم پر پاکستان ناقابل شکست تھا مگر 2001میں یہ ریکارڈ انگلینڈ سے 6 وکٹ کی ہار کے بعد ٹوٹ گیا۔ یہ میچ بھی کیا خوب تھا، میدان میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اور کپتان معین خان جان بوجھ کر پانچویں روز کے آخری مراحل میں فیلڈنگ سیٹ کرانے میں تاخیر کرارہے تھے، تاکہ کم روشنی کی بنیاد پر میچ ختم کرکے ڈرا ہوجائے۔ معین خان کی یہ ہوشیاری ایمپائر اسٹیو باکنر کی نگاہوں سے نہ چھپ سکی۔ جنہوں نے کئی بار معین خان کو تنبیہ کی۔اِ دھر انگلش کپتان ناصر حسین بھی ڈٹ گئے، جنہوں نے بیٹنگ جاری رکھنے کا اصرار کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فتح کے لیے رنز انتہائی کم رہ گئے ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد ختم ہونے والے اس میچ کو جیت کر ہی ناصر حسین ڈریسنگ روم تک پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اس بڑے میدان میں بغیر فلڈ لائٹس کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا میچ دیکھا۔
یہ وہ دور تھا جب تماشائیوں کی انٹری کی ضمانت صرف ٹکٹ سے مشروط تھی۔ کوئی تلاشی ولاشی کا تصور نہیں تھا۔ جبھی میدان میں ڈھول تاشے، بینرز، باجے،ریڈیو ٹرانسیٹٹر اور کچھ من چلے پتھر یا پھل لے کر آتے اور کبھی نہ کبھی اس کا استعمال بھی کرلیتے۔
اُس زمانے میں خواتین کاانکلوائزر الگ ہوتا۔ جس کے برابر والے حصے میں شرارتی نوجوا ن ٹولیاں بنا کر بیٹھے ہوتے اور نعروں اورہوٹنگ کے ذریعے اکثر دل کا حال بیان کرتے رہتے۔۔ عملی صحافتی زندگی میں جب قدم رکھا تو نیشنل اسٹیڈیم کے ’اسٹوڈنٹس انکلوائزر‘ سے جان چھٹ گئی اور پریس گیلری میں بیٹھ کر ایک عرصے تک مختلف میچز دیکھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ مہذبانہ انداز میں بیٹھ کر میچ دیکھنا اور پھر رپورٹنگ کرتے ہوئے کئی بار دل مچلتا کہ اڑ کر جنرل یا اسٹوڈنٹس انکلوائزر پہنچ جائیں اوربتائیں ان بچوں کو کہ ہم بھی انہی جیسے ہیں۔
۔اُس زمانے میں کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن بھی خاصی فعال تھی، بھلا ہو کے سی سی اے کے سراج السلام بخاری صاحب کا جوعموماً خندہ پیشانی اور خلوص کے ساتھ صحافی برادری کا بڑا خیال رکھتے۔ کسی کو میچ دکھانا مقصود ہوتا تو بخاری صاحب یہ مشکل بھی آسان کردیتے۔
خیر ماضی کے جھروکے سے نکل کر اس وقت ہم پی ایس ایل کے اس میچ کا نظارہ کررہے تھے جسے پاک بھارت میچ جیسی پوزیشن مل گئی تھی۔ چونکہ کراچی والے ہوتے ہوئے بھی ہم نے لاہور قلندر کی ٹی شرٹ زیب تن کررکھی تھی، اسی لیے کچھ من چلے ہمیں ’پردیسی‘ سمجھ کرلاہور قلندر کی وکٹ گرنے یا لاہوری بالرز پر چھکا چوکہ پڑنے پر طنزیہ انداز میں دیکھ کر اور شور شرابا مچاتے رہے۔ حالانکہ ہم تو ہر اچھے شارٹس یا وکٹ پر دونوں ٹیموں کو دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ ڈر یہ بھی لگ رہاتھا کہ اگر لاہور ہار گیا تو کس طرح ان تماشائیوں کا سامنا کریں گے۔ وہ تو بھلا ہو ڈیوڈ ویزے کا جن کی طوفانی بیٹنگ سے لاہور نے یہ معرکہ جیت لیا۔
میچ کے دوران پی سی بی کے رضا کار بار بار تماشائیوں کو تاکید کرتے رہتے کہ وہ ماسک کا استعمال کریں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔ اب ان کے ہونے تک تو اس پر عمل کیا جاتا۔ بصورت دیگر ماسک اور سماجی فاصلے کو کوئی خاطر میں نہ لارہا تھا۔ میچ کے اختتام پر ہمارا اپنا خیال تھا کہ کسی کنسرٹ یا سنیما سے نکلنے والی بھگڈر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے بھی میدان سے برق رفتاری کے ساتھ نکلنا شروع کردیا ۔ مگر واقعی سندھ حکومت، سندھ پولیس، دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پی سی بی قابل تعریف ہیں جنہوں نے انتہائی بہترین اور اعلیٰ انتظام کررکھے تھے۔ گیٹ کے سامنے ہی شٹل سروس تیار تھیں جو پھر سے پارکنگ ایریا کی جانب اپنے مسافروں کو لے کر پہنچ گئیں۔ علم میں تو یہ بات بھی آئی کہ یہ شٹل سروس میچ کے اختتام پر ہی دستیاب ہوتی ہے۔ درمیان میں اس کاملنا طویل انتظار سے دوچار کرسکتا ہے۔ میچ سے واپسی پر بس اس بات کی خواہش دل میں مچلی کہ جس طرح کرکٹ کا یہ رونق میلہ آباد ہوا ہے، کاش پھر سے ہمارا والا دور بھی لوٹ آئے جب صرف ٹکٹ دیکھ کر میدان کے اندر جانے دیا جاتا تھا اور یقین تو یہی ہے کہ جب پورا کا پورا پی ایس ایل دبئی سے اٹھ کر پاکستان آسکتا ہے تو یہ زمانہ بھی بس آنے والا ہے ۔