عمران خان کا پھر سے ابھرنا ملک کے لیے سیاہ باب ثابت ہو گا

عمران خان کو ان کے ناکردہ جرائم سے تو بریت ملے گی ہی، کردہ جرائم بھی معاف کر دیے جائیں گے۔ رہائی کے بعد عمران خان ایک مرتبہ پھر جب مسند اقتدار پر بیٹھیں گے تو پاکستان کا سیاہ دور شروع ہو جائے گا۔ کئی نشانیاں ہیں جو اس مایوس کن نتیجے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

Pervez Hoodbhoy on Imran Khan

پاکستان کے لبرل تجزیہ کار جنہیں عمران خان اگرچہ 'لبرل گند' اور 'خونی لبرلز' کہتے آئے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے منصف مزاجی کے ساتھ 8 فروری کے عام انتخابات کو بجا طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔

عام انتخابات سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو غیر منصفانہ طور پر باہر رکھنے پر اچھی خاصی تعداد میں لوگ آواز اٹھا رہے ہیں اور لبرل طبقہ بھی ان کا ہم نوا بن چکا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے، مگر کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ کیا 2018 کے انتخابات میں بھی ہمیں اسی قسم کے انتظامات نہیں دیکھنے کو ملے تھے جب عمران خان مقتدر لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے جنہوں نے بعد میں عمران خان کے نیچے سے کندھا کھینچ لیا تھا۔

یہ سچ ہے کہ دو غلط کام مل کر ایک صحیح نہیں بن سکتے۔ تاہم باشعور اور سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کو ایک سیاست دان یا ان کی جماعت پر آنے والی مصیبت سے بڑھ کر دیگر بہت سارے مسائل پر پریشان ہونا چاہیے۔ بالخصوص انہیں اس بات پر تشویش کا اظہار کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ 8 فروری کے انتخابات جمہوریت کو مستحکم کرتے، یہ محض اقتدار پر قبضے کے لیے ایک ایسی دوڑ ثابت ہوئے جو ہارس ٹریڈنگ کو ہوا دے گی۔

انتخابی امیدوار جب ٹیلی وژن سکرینوں پر نمودار ہوئے تو ان کی زبان غیر شائستہ، جارحانہ اور اشتعال سے لبریز تھی۔ ان میں سے کسی نے بھی ہمارے سماج اور ملک کی حالت سنوارنے کا کوئی منصوبہ اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار بتانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ تاریخی واقعات چغلی کھاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پارلیمان کا حصہ بننے والوں کی بڑی تعداد کا مطمع نظر محض دولت اور طاقت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔

انتخابی دوڑ میں مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر حریف، سیاسی جماعتوں کے بجائے بھیڑیوں کے جیسے نظر آئے۔ اپنے پاس واضح ایجںڈا نہ ہونے کے باعث الیکشن سے محض چند روز پہلے انہوں نے عجلت میں تیار کیے گئے کچے پکے منشور ہچکچاہٹ کے عالم میں پیش کیے۔ ان منشوروں میں منصوبوں کی تفصیلات اور ان پر عمل درآمد کی سکیمیں چونکہ ناپید ہیں، اس لیے یہ سرے سے بے کار ہیں۔

انتخابی عمل میں جن عوامل کا غلبہ رہا ان میں شخصی مقابلے، فرقہ وارانہ اور قبائلی وابستگیاں اور رشوت سرفہرست ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے ملک کی بگڑتی معیشت، آبادی میں بے تحاشہ اضافے اور بلوچستان، گلگت بلتستان میں بڑھتی ناراضگی جیسے مسائل پر قابو پانے کی کوئی راہ نہیں دکھائی۔ مایوس نوجوانوں کی بڑی تعداد جن کے پاس یونیورسٹیوں کی ڈگریاں تو ہیں مگر مہارت سے عاری ہیں، ان کا کیا ہو گا؟ عورت دشمنی سے جڑی مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کیسے ہو گا؟ ریاستی اداروں بشمول عدلیہ، بیوروکریسی، پولیس اور فوج پر ختم ہوتے اعتماد کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے؟

8 فروری کے عام انتخابات نے نادانستہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے اسیر رہنما کو پاکستان کا مقبول ترین سیاست دان بنا دیا ہے۔ ان کے خلاف عدت کا مقدمہ بہت بڑا مذاق تھا۔ اس قسم کے فرسودہ حربوں سے عمران خان کو ملک گیر ہمدردی حاصل ہوئی۔ 2018 میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ہیرو بنانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی، اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے بدنام کرنے کی کوشش میں عمران خان کو ہیرو بنا دیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مستقبل کا نقشہ کیا ہو گا؟ ماضی کے سزا یافتہ سیاست دانوں کو ہم نے حال ہی میں بے قصور ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ اس مثال کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عمران خان بھی کچھ مہینوں یا کچھ سالوں میں رہا ہو جائیں گے۔ عمران خان کو ان کے ناکردہ جرائم سے تو بریت ملے گی ہی، کردہ جرائم بھی معاف کر دیے جائیں گے۔ رہائی کے بعد عمران خان ایک مرتبہ پھر جب مسند اقتدار پر بیٹھیں گے تو پاکستان کا سیاہ دور شروع ہو جائے گا۔ کئی نشانیاں ہیں جو اس مایوس کن نتیجے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

آئیے ذرا شہنشاہ معظم عمران خان کے اگست 2018 سے اپریل 2022 تک جاری رہنے والے دور اقتدار کو پھر سے یاد کرتے ہیں۔ عمران خان بوٹ پالشیوں کے ایک گروہ میں گھرے ہوئے تھے جن میں سے بیش تر 9 مئی کے بعد عمران خان کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چن چن کر موقع پرستوں کو عمران خان نے اہم عہدوں پر بٹھایا۔ ان میں سے ایک صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے۔ انہوں نے اقتدار کی ہوس رکھنے والے موقع شناسوں کو اپنے قریبی ساتھی بنایا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ایک خوشامدی جرنیل کو منتخب کیا اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو کمزور الزامات لگا کر فارغ کر دیا۔

عمران خان جب اقتدار میں تھے، مذہبی دہشت گردوں کے حوصلے بلند تھے۔ بھاگ کر افغانستان جانے والے تحریک طالبان کے جنگجوؤں کو عمران خان نے شمالی وزیرستان میں آ کر آباد ہونے کی دعوت دی۔ آج سے 10 سال قبل 2013 میں پشاور میں آل سینٹس چرچ پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد عمران خان نے طالبان سے گزارش کی کہ امن مذاکرات کے لیے وہ پاکستان میں اپنے دفاتر کھولیں۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد طالبان نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے 141 بے گناہ بچوں اور اساتذہ کی جان لے لی۔ عمران خان نے جائے وقوعہ پر جانے کی کوشش کی تو مرنے والے بچوں کے والدین نے ان سے منہ موڑ لیا۔

اپنے 4 سال سے بھی کم عرصے کے دور اقتدار کے دوران کم و بیش اپنے 130 وعدوں سے مکر جانے پر عمران خان کو بجا طور پر 'یوٹرن خان' کا خطاب ملا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہفتوں تک کھلے عام یہ اعلان کرتے رہنے کے بعد کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض نہیں لے گا، عمران خان نے اپنے معاشی ماہرین کو قرض مانگنے کے لیے واشنگٹن روانہ کر دیا۔ جب عمران خان کو ان کا دعویٰ یاد دلایا گیا تو انہوں نے سینہ ٹھوک کر جواب دیا کہ یوٹرن لینا بڑے لیڈروں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ جو لوگ عمران خان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ان کے لیے یہ جواب حیران کن نہیں ہو گا مگر وہ لوگ جو مستقل مزاجی اور سچائی کو اہمیت دیتے ہیں وہ عمران خان کی تاویل سے ہرگز قائل نہیں ہوئے۔

عمران خان کے دور میں پیکا جیسے ڈریکونین قانون کو مزید سخت بنایا گیا (جو اب پی ٹی آئی کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے)، ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید پست ہوئی اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن سے متعلق فہرست میں بھی پاکستان کی کارکردگی بری رہی۔ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ جیسے کیسز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن سیاست دانوں کو عمران خان چور چور کہہ کر یہ الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے عوام کے پیسوں سے اپنی جیبیں بھریں، خود بھی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

سنگل نینشل کریکولم نے ذہنوں پر جو منفی اثر ڈالا یہ عمران خان کا پاکستان کے لیے سب سے بدترین کارنامہ تھا۔ پہلی مرتبہ سپر ایلیٹ طبقے کے سکولوں کو چھوڑ کر باقی سب سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کو مدرسوں کے کریکولم اپنانے پر مجبور کیا گیا۔ جس غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا وہ تو سراب ثابت ہوا مگر اس کے نتیجے میں تعلیمی معیار بری طرح گر گیا۔ آنے والی نسل کو دھڑا دھڑ مذہبی مواد رٹوایا جا رہا ہے جبکہ ان میں ہنر نام کی چیز ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

ان کے اندھے معتقدین اور وہ لوگ جو امریکہ کو برائی کی جڑ قرار دیتے ہیں، ان کے ذہنوں میں عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی امریکی سازش تھی۔ مارچ 2022 میں ایک عوامی جلسے کے موقع پر عمران خان نے ایک 'خفیہ' کاغذ لہرایا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اقتدار سے ان کی بے دخلی سے متعلق امریکی سازش کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ تاہم کچھ ہفتوں بعد انہوں نے امریکہ کو اس الزام سے بری کر دیا اور سازش کے دائرے کو سپر کنگ باجوہ (جن کو مدت ملازمت میں عمران خان نے توسیع دی تھی)، نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان تک پھیلا دیا۔

انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی تجزیہ کار منی شنکر ایئر جو پاکستان دوست خیالات رکھتے ہیں، نے جذباتی انداز میں لکھا؛ '8 فروری 2024 کا دن پاکستان میں تاریخی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس روز پاکستان کے عوام نے اپنی فوج کو شکست دی تھی'۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ختم کرنا چاہتی تھی، تو کیا یہ بیان واقعی درست نہیں ہے؟

ظاہری طور پر تو اس کا جواب ہاں ہے۔ پی ٹی آئی کے بیش تر ووٹرز نے فوجی جرنیلوں کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ عمران خان کے حامیوں کا فوج مخالف غصہ 9 مئی کو سامنے آیا جب انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور توڑ پھوڑ کی۔ دوسری جانب عمران خان نے پاک فوج کے کاروباری، کمرشل اور ریئل سٹیٹ مفادات پر کبھی خفگی کا اظہار نہیں کیا اور نا ہی انہوں نے ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کی بڑے انتظامی عہدوں پر تعیناتی کی کبھی مخالفت کی ہے۔

عمران خان کے اپنے الفاظ ہیں کہ وہ اور فوج 'سیم پیج پر ہیں'۔ ان کے فوج کے ساتھ اختلافات نجی نوعیت کے ہیں، بعض فوجی جرنیل ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسرے ان کے مخالف۔ عمران خان کا یہ بیان بھی سب نے سن رکھا ہے کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتا ہے۔

انتخابات کا مقصد تب پورا ہوتا ہے جب یہ ایک نمائندہ حکومت کی تشکیل ممکن بنائیں، بے روزگاری اور وسائل کی تقسیم جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے استعداد کار کو بڑھائیں اور ایسے امیدواروں کو سامنے لائیں جو قانون کی حکمرانی، شائستگی اور عوامی خدمت کے جذبے پر یقین رکھتے ہوں۔

عمران خان کا ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آنا ان آدرشوں کی نفی کرتا ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سیاسی پختگی کی منزل سے کوسوں دور رہے گا۔

**

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ تجزیہ انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔