چیف آف آرمی اسٹاف کے ترجمان جنرل آصف غفور نے سوموار کو 58 منٹ میڈیا سے بات کی اور پھر اگلے 23 منٹ مدعو کیے گئے صحافیوں کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔ جمہوری حکومتوں کے ادوار میں شاید یہ آئی ایس پی آر کی تاریخ کا سب سے طویل خطاب تھا۔ تمام چینلز نے بغیر کسی حیل و حجت یہ براہ راست اور بغیرکسی خبروں کے وقفے اور اشتہارات کے دکھایا۔ پہلے گیارہ منٹ افواج کے ترجمان نے مشرقی سرحدوں پر فروری کے واقعات کی نسبت سے بھارت کو نہ صرف جھوٹا ثابت کیا بلکہ بھارتی وزیراعظم مودی کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے استمال پر دیے گئے بیان پر تبصرہ بھی کیا اور آخر میں بھارت کو پاکستان کے صبر کا امتحان نہ لینے کی تنبیہہ یا مشورہ بھی دے ڈالا۔ اگلے 26 منٹ ترجمان نے پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پھر دو منٹ مغربی سرحدوں پر لگائی جانے والی باڑ پر کام کی تفصیل سے آگاہ کر کے اگلے بیس منٹ پی ٹی ایم پر بات چیت کی۔
فوجی ترجمان نے پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ فکری، جغرافیائی اور تاریخی پس منظر کو اجاگر کرتے ہوئے اسے کشمیر سے جوڑا اور پھر اسے آج کی دنیا میں معاشی طاقت کی عالمی دوڑ اور ہائبرڈ جنگ کی حقیقت پر لا کر کھڑا کر دیا۔ جنگ اور محبت میں ہر چیز کو جائز قرار دیتے ہوئے پچھلے تیس سال میں انتہا پسندی اور عسکریت کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے ترجمان نے اسے اسلام فوبیا پر ختم کیا۔
ملکی سیکورٹی کے تصور اور تصویر کو اجاگر کرتے ہی انہوں نے پاک فوج کے انتہا پسندی اور عسکریت کے خلاف کیے گئے عمل تعداد اور نتائج کے ساتھ بتائے اور ریاست کو پہنچنے والے جانی، مالی اور سماجی نقصان کا بھی ذکر کیا۔ پاکستان میں موجود مدرسوں اور ان کے معاملات پر انتہائی دلچسپ اور حیران کن معلومات بھی قوم کو دیں۔
علمی اور فکری گفتگو کے بعد آخر میں پاک فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کو مخاطب کرتے ہوئے درجن سے اوپر سوالات سیاق و سباق کے ساتھ شحصیت، تاریخ اور واقعات کے تناظر میں کر کے ان سے جوابات مانگ لیے ہیں۔ ان سب سوالوں کا محور بھارت اور افغانستان کی جاسوس محکموں سے پی ٹی ایم کو ملنے والی مالی مبینہ مدد اور فوج کے خلاف مہم جوئی تھا۔
ترجمان نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ اب پی ٹی ایم کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ اس سے جنرل صاحب کی مراد کیا پی ٹی ایم کا سیاسی وقت ہے یا پھر دوسرا کوئی وقت؟ اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔ تاہم حالات کی سنجیدگی کا اندازہ اس تنبیہہ اور اس کے بعد پہلی دفعہ پشتو زبان میں دیے گئے پیغام سے ہوتا ہے۔ اپنی زبان پر لگی بندش اور مجبوری کا بیان کرتے کرتے بھی راؤ انوار کا ذکر کر ڈالا اور ساتھ ہی گلہ بھی کر دیا کہ کیا آئین اور قانون کا اطلاق صرف فوج پر ہی ہوتا ہے، یعنی سیاسی جماعتوں، ان کے قائدین اور صحافیوں پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔
ترجمان نے جن موضوعات پر بات کی ہے ان میں انہوں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے اور اگر وہ اس خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اسکی نوعیت، شدت اور سنگینی کیا ہے؟
کیا پاک فوج حکومت کی ظاہری ناکامی کی وجہ سے کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہے یا پی ٹی ایم ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکی ہے یا بننے کے واضح شواہد ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوا ہے جہاں قومی سلامتی کے اداروں کو پی ٹی ایم سے یہ سوالات پوچھنے پڑ رہے ہیں؟
ترجمان نے اس تبصرے سے پہلے کس حد تک حکومت وقت کو اعتماد میں لیا اس کی حدود کا تعین کرنا تو مشکل ہوگا۔ لیکن پیشگی اطلاع تو ضرور دی گئی تھی۔ ترجمان کا پی ٹی ایم کے خلاف تمام کارروائی قانون کے دائرے میں رہ کر کرنے کی یقین دہانی سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اور پاک فوج کے ترجمان ایک ہی صفحے پر ہیں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
بھارت سے متعلق کیے گئے تبصرے میں کوئی نئی بات نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایسی تشویش کا اظہار تھا جس پر ملکی سلامتی کو مستقبل قریب میں کوئی خطرات لاحق ہوں۔ میری نظر میں بھارتی وزیراعظم مودی کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر دیے گئے بیان کی نوعیت بھی سیاسی تھی اور اگر اس پر وہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔
بھارتی آرمی چیف اگر ایٹمی ہتھیاروں یا ملکی سلامتی کے متعلق کوئی بیان دیں تو اس کا جواب پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے بنتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے جو بیان دیا تھا اس کا جواب اگر حکومت کی طرف سے آتا تو وہ زیادہ موزوں ہوتا۔
اسی طرح افوج پاکستان یا ریاست کے صبر یا برداشت یا خاموشی کا امتحان نہ لینے کی تنبیہہ کیے بغیر بھی گزارا ہو سکتا تھا۔
مدرسوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ترجمان نے جو بات چیت کی کیا یہ ان کی حدود سے باہر تھا اور باہر ہونے کی نوعیت کیا تھی؟ کیا انہوں نے کوئی تعلیمی پالیسی دی یا وزارت تعلیم کی حدود میں قدم رکھ دیا؟ اگر وزیر داخلہ پی ٹی ایم کے بارے میں بات کرتے تو تنقید یہ ہوتی کہ اپنے حریف کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا۔
فوجی ترجمان کے پوچھے گئے سوالوں میں سیاسی شخصیتوں یا واقعات کا ذکر تھا مگر درجن سے اوپر پوچھے گئے کسی ایک سوال کی نوعیت سیاسی نہیں تھی۔ سوال جواب کے سیشن میں بھی انہوں نے سیاسی حدود میں نہ جانے کی پوری کوشش کی۔
فوج کے ترجمان نے پی ٹی ایم کے متعلق کوئی خبر نہیں دی، نہ ہی کسی خدشے کا اظہار کیا ہے بلکہ حکومتی فیصلہ سنایا کہ پی ٹی ایم کا وقت پورا ہو گیا ہے اور چونکہ قانونی راستہ لینا ہے اس لئے ایسے لگتا ہے کہ فوج نے یہ تمام ثبوت عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ترجمان کو چاہیے کہ اب دوسرے کرداروں کو بھی اسی طرح بے نقاب کریں چاہے وہ عزیر بلوچ ہو یا راؤ انوار۔
منظور پشتین نے تو اسی رات کو وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان الزامات کی نہ صرف تردید کی ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم بھی دہرایا ہے۔
اب گیند فوجی ترجمان کے کورٹ میں ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے جو کہا وہ کر کے دکھایا اور پوری قوم سے اس کی داد وصول کی۔ اب شہرت دوبارہ داؤ پر لگ گئی ہے۔ قوم امید سے پہلے ہی ہے اب منتظر رہے گی کہ کب اور کتنی جلدی پی ٹی ایم کی حقیقت سامنے آتی ہے۔
آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں جہاں روایتی خطرات اور جنگیں اپنی افادیت کھو چکے ہیں وہاں زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے قومی سلامتی کی حدود کا تعین کرنا بھی خود اسے خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ آج کی قومی سلامتی فوجی قوت کے توازن میں فرق پڑنے سے کم اور بجٹ کے متوازن نہ ہونے سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ یہ قومی سلامتی فوجی قوت سے زیادہ انسانی ترقی، قدرتی وسائل، معاشی مضبوطی اور سائنس اور انفارمیشن کے حلقہ اثر پر منحصر ہے۔
آج کی دنیا میں قومی سلامتی کو لاحق خدشات میں دہشتگردی، ایٹمی تکثیر، موسمی بدلاؤ، آبادی کا زیادہ ہونا، قدرتی ذخائر کی کمی، توانائی اور خوراک کی کمی اور انسانی حقوق جیسے ایشوزشامل ہیں۔ ان تمام خدشات کے ساتھ ساتھ آج کا پاکستان سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے حالت جنگ میں بھی ہے۔ یہ ہماری اپنی لگائی جنگیں ہیں اور ہم نے ہی ختم کرنی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اب حدود کا تعین کرنے کی بجائے نیت اور عمل پر مرکوز ہوا جائے۔ یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہی نہیں بلکہ ملکی ضرورت اور دانائی بھی ہوگی۔
جہاں حکومت کو کُھل کر اپنے اداروں کے پیچھے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے چاہے وہ نیب ہو یا فوج وہاں سیاستدانوں، میڈیا اور معاشرے کے ایک خاص گروہ کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اداروں کے کردار کو شک سے دیکھنے اور تنقید کرنے کی روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو جمہوریت اس ملک میں پروان چڑھے گی۔ نظام کو کوسنے یا بدلنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ سوچ کو بدلنا ہو گا۔