مشہور زمانہ صحافی ڈینیل پرل اغوا اور قتل کیس میں نئی پیش رفت سامنے آئی ہے اور مقتول صحافی کے امریکا میں مقیم والدین نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق ڈینئل پرل کی والدہ اور والد نے یہ اپیل اپنے اکیل کی وساطت سے دائر کی ہے۔ دونوں کے نام روتھ پرل اور جوڈیا پرل اور پتے اپیل پر بطور پٹیشنر درج ہیں۔
https://twitter.com/HasnaatMalik/status/1256530028231360513?s=08
یاد رہے کہ ڈینیل پرل اغواء اور قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ 18 برس قید کاٹنے کے بعد 3 ملزمان کو رہا کرنے کاحکم دے دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے گذشتہ ماہ کی دو تاریخ کو کیا گیا تھا۔
ڈینیئل پرل کا قتل کب اور کیسے ہوا؟
امریکی صحافی ڈینیل پرل اخبار وال سٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا بیورو چیف تھے اور کراچی میں مذہبی انتہا پسندوں سے متعلق ایک خبر پر تحقیق کر رہے تھے جب انہیں اغوا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 38 برس تھی۔ اس قتل کی ویڈیو بھی کراچی میں واقع امریکی قونصل خانے کو پہنچا دی گئی جس میں ڈینیئل پرل کا سر قلم کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ عمر شیخ کو 2002 ہی میں گرفتار کیا گیا تھا اور انسدادِ دہشتگردی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی تھی۔
تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ملزمان کے وکلا کا مؤقف عدالت نے کیوں درست سمجھا؟
مجرمان کے وکلاء کے نہ ہونے کے باعث سماعت 10 سال تک ملتوی رہی۔ گذشتہ کئی سال سے یہ مقدمہ زیرِ سماعت تھا۔ عدالت کے سامنے ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ پولیس مجرموں کے خلاف ٹرائل میں ٹھوس شواہد پیش نہ کر سکی اور اب بھی ملزمان کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں میں شک کی گنجائش موجود ہے۔ مثال کے طور پر پولیس نے مقدمے میں لکھا کہ انہوں نے ملزمان کا لیپ ٹاپ 11 فروری 2002 کو قبضے میں لیا جب کہ کمپیوٹر ایکسپرٹ رانلڈ جوزف کے مطابق یہ کمپیوٹر انہیں 4 فروری کو دیا گیا تھا اور انہوں نے 6 روز اس کا معائنہ کیا۔
ملزمان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ کیس میں تمام گواہ پولیس اہلکار تھے اور مجسٹریٹ کے سامنے نسیم اور عادل شیخ کے اقبالی بیانات ان سے زبردستی لیے گئے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ کا 18 سال بعد آنے والا فیصلہ در اصل کیا تھا؟
جس پر سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے 6 مارچ کو حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اب سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے چار مجرموں کی اپیلوں پر 18 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے 3 ملزمان کو رہا کرنے اور احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو تبدیل کرتے ہوئے انہیں صرف اغوا کے مقدمے میں سات سال کی سزا سنائی۔ شیخ کے وکلا کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری وکلا نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کیا تو ان اس وقت کی صورتحال کے مطابق ان کا مؤکل آزاد ہے کیونکہ سات سال سے کہیں زیادہ سزا وہ پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔
کیا احمد عمر شیخ کی سزائے موت درست تھی؟
جنوری 2011 میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پرل پراجیکٹ نے یہ حیران کن انکشاف کیا تھا کہ ڈینیئل پرل کے کیس میں غلط افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پراجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم جو ڈینیئل پرل کی دوست اسرا نعمانی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پر مبنی تھی نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈینیئل پرل کے کیس میں 911 حملوں کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد عرف KSM مجرم تھا، عمر شیخ نہیں۔
خالد شیخ محمد کو بھی 2003 میں پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اور یہ گذشتہ کئی سال سے گوانتانامو بے میں موجود ہے۔ ایک امریکی سائیکولوجسٹ جس نے KSM کا انٹرویو کیا تھا، اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ڈینیئل پرل کا قتل خالد نے ہی کیا تھا۔